بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کی جانب سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر 17 ہزار فوجیوں کے جواب میں ٹینک ریجمنٹس سمیت فوج کی بھاری نفری تعینات کردی ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں خبر ایجنسی 'اے این آئی' کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا کہ لداخ میں دولت بیگ اولڈی (ڈی بی او) اور دیپسانگ میدانی علاقے میں چین کی پیپلز لیبریشن آرمی (پی ایل اے) سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے آرمرڈ ڈویژن کی ٹی 90 ریجیمنٹ کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: لداخ تنازع: بھارت اور چین کا سرحد سے فوج واپس بلانے پر اتفاق

بھارتی ذرائع نے بتایا کہ نئی دہلی کی جانب سے مذکورہ تعیناتی قراقرم پاس (بی بی تھری) کے نزدیک پیٹرولنگ پوائنٹ 1 سے دیپسانگ کے میدانی علاقوں میں کی گئی جہاں اپریل اور مئی سے 17 ہزار چینی فوج موجود ہے اور پی پی 10 سے پی پی 13 تک بھارتی پیٹرولنگ کو روک رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں کی تعیناتی سے چین کی سرگرمیاں محدود ہوجائیں گی، علاوہ ازیں کسی بھی ایڈونچر کا جواب دیا جا سکے گا۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اس سے پہلے پورے علاقے کی نگرانی پہاڑی بریگیڈ اور ایک بکتر بند بریگیڈ کرتی تھی لیکن آج 15 ہزار سے زیادہ فوجی اور متعدد ٹینک ریجمنٹ کو سڑک اور ہوائی راستے منتقل کردیا گیا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔

علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا کہ چین ٹی ڈبلیو ڈی بٹالین ہیڈ کوارٹر سے ڈی بی او سیکٹر کے سامنے قراقرم پاس ایریا تک سڑک بنانا چاہتا ہے تاکہ دونوں بٹالین کو جوڑ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک

ذرائع کا کہنا تھا کہ سڑک بننے کی صورت میں دو چینی یونٹوں کو اپنے علاقے میں ہائی وے جی 219 کے ذریعے 15 گھنٹے کی ڈرائیو کے بجائے محض ایک دو گھنٹے میں دوسرے تک پہنچنے میں مدد مل سکے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ چینیوں نے پی پی 7 اور پی پی 8 کے قریب نالہ (نالی) پر بھارتی علاقے کے اندر ایک چھوٹا پُل بنایا تھا لیکن اسے کچھ سال قبل بھارتی فوجیوں نے توڑ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھارت اور چین کے مابین فنگر ایریا و دیگر علاقوں میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ تاحال ڈیپسانگ میدانی علاقوں اور ایل بی او ایریا سے متعلق بات چیت عسکری مذاکرات کا حصہ نہیں بنی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہم ڈیپسانگ میدانی علاقوں اور ڈی بی او علاقے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور ہمیں چینیوں کے ساتھ اس پر تبادلہ خیال کرنے میں جلدی نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پہلے یہ ڈس انگیجمنٹ ہو جانے دیں اور اس کے بعد وہاں بھی ڈی اسکیلائزیشن کے بارے میں بات کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں: چین سے سرحدی تنازع: بھارت نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مسترد کردی

خیال رہے کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اتوار کے روز کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات ہوئے تھے۔

25 جولائی کو بھارتی اور چینی سفارت کاروں نے مغربی ہمالیہ میں متنازع سرحد کے اس پار ایک دوسرے سے نبرد آزما افواج کو تیزی سے واپس بلانے پر اتفاق کر لیا تھا۔

واضح رہے کہ متنازع خطے میں ہونے والی جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

لداخ کی وادی گلوان میں 15 جون کو لڑائی کے دوران کوئی گولی نہیں چلائی گئی اور بھارتی فوجیوں کو پتھروں سے مارا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ ایشیا کی مسلح جوہری طاقتوں کے مابین دہائیوں میں بدترین تصادم تھا۔

خیال رہے کہ مئی سے اب تک جوہری طاقت کے حامل ملکوں کے درمیان جاری تناؤ میں ہزاروں فوجی دستے آمنے سامنے آ چکے ہیں جس پر ماہرین نے انتباہ جاری کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی خطے میں ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔

9 مئی کو بھارتی اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ میں ہاتھا پائی ہوئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا تھا جس سے کئی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔

پیپلز لبریشن آرمی کی جانب سے جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان علاقوں میں شمال میں پین گونگ تسو جھیل اور اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل وادی گلوان کا اہم علاقہ بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

بھارت اور چین کی سرحدیں ہمالیہ سے ملتی ہیں اور دونوں ممالک میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے، دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔

چین، بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے متعلقہ حکام درجنوں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں