اپوزیشن جماعتوں کے کردار پر تحفظات دور ہوں گے تو اے پی سی ہوجائے گی، فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 11 اگست 2020
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے کردار پر تحفظات ہیں وہ دور ہوں گے تو پھر کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) ہوجائے گی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر پیش آئے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مریم نواز سے اظہار یکجہتی کیا۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی پیشی پر جہاں ان کے کارکنوں پر آنسو گیس پھینکا گیا اور تشدد کیا گیا، وہاں مریم نواز کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ بعد ازاں انہوں نے مجھ سے رابطہ بھی کیا اور آنکھوں دیکھا حال بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاست میں اس طرح کے رویے اور نیب کی بھی مذمت کرتے ہیں، جو اب یہ بہانہ بنا رہا کہ ہم نے مریم نواز کو اکیلے بلایا تھا۔

مزید پڑھیں: عید کے بعد اپوزیشن کے اے پی سی کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی، شبلی فراز

انہوں نے کہا کہ نیب انتقام کے لیے بنایا گیا ادارہ ہے، یہ احتساب کے لیے بنایا گیا ادارہ نہیں ہے، حکومت اس ادارے کے ذریعے اپوزیشن کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے، لہٰذا ہمیں ایک مضبوط مؤقف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، جب تک تمام اپوزیشن یکسو نہیں ہوگی ہم ان ظالمانہ اقدام اور ناجائز حکومت کے خاتمے کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔

مریم نواز کی پیشی پر مسلم لیگ (ن) کی گاڑیوں سے پتھر برآمد ہونے سے متعلق سوال پر مولانا کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑیوں سے پتھر اس لیے برآمد ہوئے ہیں کیونکہ وہ باقائدہ پتھروں کے ساتھ بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم نے جو مقابلہ کرنا ہے وہ کرسکیں، ہم ان قوتوں کو بھی جانتے ہیں، جنہیں ایسے وقت میں اس طرح کی شرارت سوچتی ہے جو 'شیطان' بھی ایسے وقت میں نہیں سوچتا ہو۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے کردار پر تحفظات ہیں، وہ دور ہوں گے تو پھر کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) ہوسکے گی اور باقی کام بھی ہوسکیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا کہ حکومت کے خاتمے کی ذمہ داری جہاں سلیکٹرز کے اوپر ہے وہیں اپوزیشن کی بھی یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ آج تک اپنی یکسوئی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، جس کا فائدہ وہ اٹھا رہے ہیں۔

دوران گفتگو فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ بولا جارہا کہ نیب پر حملہ کیا گیا، نیب اور کارکنوں کے بیچ میں فاصلہ تھا کیونکہ کارکنوں کا اکٹھا ہونا ان کا حق ہے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ میڈیا ایسے وقت میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی نہ کرے جو جمہوریت، سیاست دشمن ہیں اور ناجائز حکمرانی کی بنیاد پر حکومت کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قانون سمیت دیگر ترامیم کا فیصلہ اے پی سی میں ہوگا، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں میرے جلوس پر بھی پہلے پولیس نے پتھراؤ کیا تھا اور میں زخمی ہوا تھا، لہٰذا ایسا نہیں کہ پولیس کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو اور وہ استعمال نہ کرتے ہوں تو یہ بدمعاشی ان کی طرف سے بھی چلتی رہتی ہے۔

صحافی کی جانب سے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نواز شریف کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا شہباز شریف کی پالیسوں کے ساتھ تو اس پر مولانا نے کہا کہ اب تو صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور اب ان سے پوچھنا چاہیے کہ فضل الرحمٰن کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے ہو یا نہیں۔

ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون کی منظوری کے دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے سے متعلق سوال پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اسی پر اختلاف رائے ہے، یہی چیزیں ہم نے طے کرنی ہے کہ آئندہ بھی ایسی صورتحال آسکتی ہے تو بار بار یہ صورتحال کہ ہم حکومت کو سہولت بھی مہیا کریں اور اپوزیشن میں بھی رہیں، یہ دونوں چیزیں اکٹھا نہیں چل سکتی، ہمیں ایک مؤقف پر آنا پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں