کراچی سے 'لاپتا' انسانی حقوق کے کارکن سارنگ جویو گھر پہنچ گئے

سارنگ جویو کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہوئے تھے—فائل فوٹو:
سارنگ جویو کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہوئے تھے—فائل فوٹو:

کراچی سے ایک ہفتے قبل مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے انسانی حقوق کے کارکن سارنگ جویو گزشتہ شب اپنے گھر واپس پہنچ گئے۔

اس حوالے سے ان کے والد اور معروف سندھی مصنف تاج جویو کا کہنا تھا کہ 'نامعلوم افراد' نے ان کے بیٹے کو سہراب گوٹھ کے پاس رات ایک بجے اتارا جس کے بعد سارنگ ٹیکسی لے کر گھر آئے۔

34 سالہ سارنگ جویو شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبسٹ) کراچی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب اور آئی جی سندھ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں طلب

ان کے والد کے مطابق سارنگ جویو سندھی سوجاگی فورم کی قیادت کر رہے تھے تاکہ افغان مہاجرین کی صوبے سے واپسی، 2017 کی مردم شماری اور دیگر لوگوں کی جبری گمشدگیوں جیسے سندھ کے مسائل کو اجاگر کیا جاسکے۔

تاہم وہ 10 اور 11 اگست کی درمیانی شب کو کراچی کے علاقے اخترکالونی میں اپنی رہائش گاہ سے نکلنے کے بعد سے لاپتا تھے، ان کے اہل خانہ کو یقین تھا کہ انہیں نامعلوم سیکیورٹی اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ واپس آنے پر ان کا بیٹا تھکا ہوا تھا اور وہ بہتر محسوس نہیں کر رہا تھا جس پر اہل خانہ نے ایک نجی ڈاکٹر کو بلایا جس نے معائنہ کرکے 'آرام کرنے کا مشورہ دیا' ہے۔

تاج جویو جو جبری گمشدگیوں پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں ان کا کہنا تھا کہ سارنگ کے ساتھ جو ہوا وہ شاید بعد میں بیان کرے، تاہم انہوں نے سوال کیا کہ 'سارنگ جویو جس جسمانی اور ذہنی نقصان سے گزر رہا اس کا ازالہ کون کرے گا'۔

انہوں نے کہا کہ وہ تحریری طور پر اپنے مؤقف کے بارے میں سینیٹ کمیٹی کو لکھیں گے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام لاپتا افراد کو رہا کیا جائے۔

اس سے قبل رواں ہفتے تاج جویو نے سندھ کے 'بنیادی مسائل' کے حل نہ ہونے پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی وصول کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

انہوں نے اپنے بیٹے کی حالیہ 'جبری' گمشدگی پر بھی غصے کا اظہار کیا تھا اور وہ ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ کراچی پریس کلب کے باہر مشترکہ احتجاج کر رہے تھے، جنہیں مبینہ طور پر گزشتہ کچھ ماہ میں سندھ کے مختلف اضلاع سے اٹھایا گیا تھا۔

علاوہ ازیں تاج جویو نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں شرکت کی اور اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کے بیٹے کو 'اغوا' کیا گیا تب اس کے پاس 1500 روپے تھے لیکن جب وہ واپس آیا تو اس کے پاس 3 ہزار روپے موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا چیئرمین نیب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

ساتھ ہی سارنگ جویو نے 'لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھا'۔

تاج جویو کا کہنا تھا کہ ان کے پاس 228 لاپتا افراد کی فہرست تھی جس میں سے 128 افراد کو تلاش کرلیا گیا جو یا تو قید میں تھے یا انہیں رہا کیا گیا جبکہ 80 دیگر افراد کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہے۔

اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین پیپلزپارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سارنگ جویو کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور کمیٹی کی جانب سے مسئلہ اٹھانے کے بعد گزشتہ شب چھوڑا گیا۔

انہوں نے اس واقعے کو 'انتہائی افسوسناک' قرار دیا۔

لاپتا افراد کے کمیشن کے سربراہ پیش نہ ہوئے تو تحریک استحقاق لائیں گے، چیئرمین کمیٹی

ادھر کمیٹی نے چیئرمین لاپتا افراد کمیشن جسٹس (ر) جاوید اقبال کے پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

اس دوران رجسٹرار لاپتا افراد کمیشن نے بتایا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے خود آنا تھا لیکن وہ نہیں آ سکے، آصف زرداری کی پیشی کے باعث چیئرمین نیب کو سیکیورٹی خدشات تھے۔

جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ چیئرمین نیب کو کس سے خطرہ تھا؟ کیا چیئرمین نیب کو پیپلز پارٹی سے خطرہ تھا؟ چیئرمین نیب کا دفتر تو ریڈ زون کے اندر ہے پھر انہیں کیا خطرہ؟

خیال رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے لاپتا افراد کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال اور سندھ کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس مشتاق احمد مہر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ سارنگ جویو کی گمشدگی پر کمیٹی کو بریف کرنے کو کہا تھا۔

کمیٹی نے کہا کہ آصف زرداری کی پیشی تو احتساب عدالت میں تھی تو پھر ان کو پارلیمنٹ آنے میں کیا مسئلہ تھا۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کمیٹی نے چیئرمین نیب کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کیا اور ایک مرتبہ پھر انہیں کل (منگل) کو 11 بجے طلب کرلیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر کل چئیرمین نیب اجلاس میں نہیں آتے تو ان کے خلاف تحریک استحقاق لائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں