نئی دہلی کلبھوشن کی نظرِ ثانی اپیل پر بھارتی وکیل کے ذریعے پیروی کا خواہاں

اپ ڈیٹ 21 اگست 2020
لبھوشن یادیو کو ایک فوجی عدالت سے جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
لبھوشن یادیو کو ایک فوجی عدالت سے جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

نئی دہلی: بھارت نے پاکستانی عدالت میں را یجنٹ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت میں بھارتی وکیل سے ذریعے نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت کے سرکاری خبررساں ادرے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریوستاوا نے کہا کہ بھارت اس معاملے پر سفارتی ذرائع سے پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کلبھوشن یادیو کو ایک فوجی عدالت سے جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

رپورٹ میں بھارتی ترجمان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کی روح کے مطابق فری اور فیئر ٹرائل کے لیے ہم نے بھارتی وکیل کے ذریعے کلبھوشن یادیو کی نمائندگی کا کہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کو پہلے اہم معاملات حل کرنے ہیں، جیسا کہ کیس کی متعلقہ دستاویزات کی نقول اور بغیر کسی رکاوٹ کے قونصلر رسائی دی جائے‘۔

انوراگ سری وستاوا نے یہ بات ایک آن لائن میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کلبھوشن یادیو تک ’بلا رکاوٹ‘ رسائی مانگ رہا ہے جسے آئی سی جے کی جانب سے لازم کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود

حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کلبھوشن یادیو کیس میں 3 سینئر وکلا کو عدالتی معان مقرر کیا ہے اور پاکستانی حکومت کو حکم دیا ہے کہ بھارت کو پھانسی کے منتظر قیدی کے لیے وکیل مقرر کرنے کا ’ایک اور موقع‘ فراہم کیا جائے۔

یاد رہے کہ سال 2017 میں بھارت نے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے اور سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کیا تھا۔

پریس ٹرسٹ انڈیا کے مطابق ہیگ میں موجود عالمی عدالت انصاف نے جولائی 2019 میں حکم دیا تھا کہ پاکستان لازماً کلبھوشن یادیو کی سزا پر ’مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور‘ کرے اور بھارت کو بلا کسی تاخیر کے فوری قونصلر رسائی مہیا کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ

خیال رہے کہ پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر یادیو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔

اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا

تاہم حکومت پاکستان نے بذات خود وکیل مقرر کرنے کے لیے 22 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی تھی۔

جس پر 3 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سینئر وکلا کو کلبھوشن یادیو کیس میں عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ہدایت کی تھی کہ بھارتی جاسوس کے دفاع کے لیے وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر بھارتی حکومت کو پیشکش کی جائے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارتی وکیل کے بے بنیاد الزامات مسترد کردیے

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت مکمل

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: پاکستان نے عالمی عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعوؤں پر پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2، 2 جوابات داخل کروائے گئے تھے۔

تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔

علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت تھی کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔

دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔

یہ بھی دیکھیں: کلبھوشن کیس: پاکستانی وکیل کے دلائل پر بھارتی وکیل پریشان

یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔

مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔

گزشتہ سال 2019 میں 18 سے 22 فروری کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کلبھوشن یادیو کیس کی عوامی سماعت مکمل ہوگئی تھی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں