اسرائیل کا ترکی پر حماس کے اراکین کو پاسپورٹ دینے کا الزام

اپ ڈیٹ 27 اگست 2020
ترک صدر سے چند روز قبل حماس کے اراکین نے ملاقات کی تھی — فائل فوٹو: انادولو نیوز ایجنسی
ترک صدر سے چند روز قبل حماس کے اراکین نے ملاقات کی تھی — فائل فوٹو: انادولو نیوز ایجنسی

اسرائیل نے ترکی پر حماس کے ایک درجن اراکین کو پاسپورٹ کی فراہمی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے 'غیر دوستانہ اقدام' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ترک عہدیداروں سے بات کرے گا۔

چند روز قبل قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کا دورہ کرنے والے حماس کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس پر گزشتہ روز امریکا نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک صدر کی حماس رہنماؤں سے ملاقات پر امریکا کو شدید اعتراض

اس ملاقات کے حوالے سے اسرائیل کے ناظم الامور روئے گیلاڈ نے کہا کہ اسرائیل، پہلے ہی یہ بات ترکی کو بتا چکا تھا کہ حماس ترکی میں دہشت گرد کارروائی کرنے والی ہے لیکن ترکی نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

گیلاڈ نے کہا کہ اسرائیل کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ترکی نے حماس کے ان اراکین کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم کیے ہیں جو غزہ میں حماس کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس کو امریکا، اسرائیل اور یورپی یونین دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔

اسرائیلی سفیر نے کہا کہ کچھ افراد کو پاسپورٹ دیے جا چکے ہیں اور کچھ کی دستاویزات پر کام جاری ہے لیکن ہم تقریباً ایک درجن دستاویزات کی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے پاس پہلے سے ہی ایک دستاویز موجود ہے جس کی نقل ہم حکومت کو فراہم کریں گے لیکن سابقہ تجربات کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید نہیں کہ اس مرتبہ بھی کچھ ہو سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حماس اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیل کے فضائی حملے

خیال رہے کہ اسرائیلی اخبار 'یروشلم پوسٹ' نے دو روز قبل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ نے استنبول میں صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔

رپورٹ کے مطابق ملاقات میں اسمٰعیل ہنیہ کے نائب صالح العروری اور ترکی کی قومی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ہاکان فیدان بھی موجود تھے۔

ترک صدر اور حماس قائد کے درمیان ملاقات میں زیر بحث آنے والے معاملات پر رپورٹ میں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترکی بحیرہ روم اور بحیرہ اسود میں اپنے حقوق کا دفاع کرے گا، طیب اردوان

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا تھا جبکہ ترک صدر رجب طیب اردان نے اس متنازع فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل ایک 'دہشت گرد' ریاست ہے جو بچوں کو قتل کر رہی ہے۔

ترکی اور اسرائیل کے درمیان بہترین تجارتی تعلقات کے باوجود حالیہ عرصے میں مجموعی طور پر تعلقات میں شدید تناؤ رہا ہے جس میں 2018 میں ترکی کی جانب سے اسرائلی سفیر کو ملک بدتر کرنے اور مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادیوں پر ترک صدر کی شدید تنقید قابل ذکر ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں