ڈیفنس کے رہائشیوں نے حالیہ بارش میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کی جانب سے 'بنیادی فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکامی' پر دونوں اداروں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) میں درخواست دائر کردی۔

عدالت نے درخواست پر سی بی سی اور ڈی ایچ اے کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 3 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

علاوہ ازیں عدالت نے متعلقہ محکموں کے خلاف گزشتہ ہفتے سی بی سی کے باہر احتجاج کرنے والے کم از کم 22 افراد کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: کراچی: ڈی ایچ اے، کلفٹن میں بارش کے بعد نکاسی آب کی بدترین صورتحال پر مکین سراپا احتجاج

سی بی سی نے مذکورہ افراد کے خلاف دفتر کو 'نقصان' پہنچانے، ریاستی اداروں کے خلاف 'نامناسب زبان' استعمال کرنے، خوف پھیلانے، عہدیداروں کو ہراساں کرنے اور سرکاری کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرادی تھی۔

اسی دوران رہائشیوں کی جانب سے ایک احتجاج ڈی ایچ اے کراچی ہیڈ آفس کے باہر کیا گیا۔

رہائشیوں کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ حکام کی 'ناکامی اور ساتھ ہی ان کی سراسر غفلت' کے نتیجے میں شدید بارش کی وجہ سے 'جانی نقصان ہوا اور املاک تباہ ہوئیں' اور کئی دن تک رہائشیوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

درخواست کے مطابق سی بی سی شہری انتظام کے کاموں کے لیے ذمہ دار ہے جبکہ ڈی ایچ اے اپنے مختص شدہ علاقے میں ترقیاتی اور منصوبہ بندی کے کام کرتی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ڈی ایچ اے اور سی بی سی گزشتہ دو دہائیوں سے سیلاب کے بڑھتے ہوئے خطرے سے آگاہ تھی لیکن نکاسی آب کے نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے 'اربوں روپے' لینے کے باوجود 'ضروری اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے'۔

مزیدپڑھیں: 72 گھنٹے بعد بھی کراچی کے متعدد علاقوں سے بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہوسکی

درخواست میں 2006، 2009، 2017 اور 2019 میں ہونے والی بارش کا حوالہ دیا گیا جس میں 'نکاسی آب کے نظام میں خامیوں' کی نشاندہی کی گئی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سی بی سی نکاسی آب کا ایک مناسب نظام قائم کرنے میں ناکامی رہی نیز موجودہ انفرا اسٹرکچر کو برقرار رکھنے میں سراسر غفلت برتی جو سالانہ سیلاب کی بڑھتی ہوئی صورتحال کا بھی ثبوت ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سی بی سی نے اپریل 2020 میں نالوں کی صفائی کے لیے ٹھیکیداروں سے بولیاں طلب کی تھیں لیکن بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بولی میں دیے گئے نرخوں کو 'غیر معقول' قرار دیا گیا تھا اور دوبارہ بولیاں طلب کرنے کے بجائے مذکورہ منصوبے کو ترک کردیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ سی بی سی اور ڈی ایچ اے علاقے میں تباہ کن سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہول سیل املاک کو نقصان پہنچنے کے باعث متعدد شہریوں کو لاکھوں کا نقصان ہوا اور وسیع و عریض حصے میں مسلسل کھڑے پانی کی وجہ سے متعدد رہائشی اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ کے الیکٹرک نے بجلی کی فراہمی معطل کردی اور بعض مقامات پر شہریوں کو بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: سندھ: بارش سے متاثرہ سیکڑوں افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا

انہوں نے کہا کہ سی بی سی اور ڈی ایچ اے' کسی بھی ہنگامی صورتحال یا امدادی تدابیر پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے اور یہ کہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی کوششوں کی وجہ سے ہی کچھ امداد مل سکی'۔

درخواست میں کم از کم 22 رہائشیوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کو بھی شامل کیا گیا ہے جنہوں نے اس ہفتے کے شروع میں سی بی سی کے کراچی دفتر کے سامنے 'پرامن طور پر' احتجاج کیا تھا جس کو 'بدنیتی' قرار دیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ 'ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کرنا، سرکاری اہلکاروں کو دہشت زدہ کرنا اور امدادی کاموں کو روکنے سمیت جھوٹے اور غیر تسلی بخش الزامات کی بنیاد پر مظاہرے میں شریک کم از کم 22 رہائشیوں کے خلاف ایک بدنیتی پر مبنی ایف آئی آر درج کی گئی۔

ڈیفنس کے رہائشیوں نے درخواست میں کہا کہ 'ایف آئی آر دراصل مکینوں کو دھمکانے اور ان کو محکوم بنانے اور انہیں اپنے آئینی حقوق کے استعمال سے روکنے کی بدنیتی اور بلا جواز کوشش ہے۔

درخواست میں عدالت سے گزارش کی گئی کہ وہ ایک آزاد آڈیٹر کو گزشتہ 10 برس سے دونوں اداروں کے مالی کھاتوں کا فرانزک آڈٹ کروانے کی ہدایت کرے جبکہ آڈٹ مکمل ہونے تک ان کو ٹیکس اور ترقیاتی چارجز جمع کرنے سے روک دے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے 9 اضلاع میں سیلابی صورتحال، ایمرجنسی نافذ

درخواست میں عدالت سے سی بی سی اور ڈی ایچ اے کو ہدایت کرنے کی گزارش کی گئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ حالیہ بارشوں سے متاثرہ علاقے کے کمزور لوگوں کو 'مناسب پناہ گاہ، وسائل، رہائش اور محفوظ مقام' فراہم کیا جائے۔

ڈی ایچ اے کراچی ہیڈ آفس کے باہر احتجاج

دریں اثنا ڈیفنس کے رہائشی ڈی ایچ اے کراچی ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوئے اور بارش کے بعد کی ابتر صورتحال کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

دفتر جانے والی بعض سڑکوں پر کنٹینرز رکھے گئے تھے جبکہ آفس کے باہر مرد اور خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔

شہریوں نے نکاسی آب کے نظام کے فقدان کے خلاف احتجاج کیا جبکہ انہوں نے عدالتی درخواست میں مذکور مطالبات کو بھی دہرایا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on


اس رپورٹ کی تیاری میں ڈان اخبار کے نمائندہ اسحٰق تنولی نے تفصیلات فراہم کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں