بہتر ہوگا اگلا آئی سی سی چیئرمین بگ تھری سے نہ ہو، احسان مانی

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2020
چیئرمین پی سی بی نے آئی سی سی کے مالیاتی ماڈل میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
چیئرمین پی سی بی نے آئی سی سی کے مالیاتی ماڈل میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے نئے چیئرمین کے چناؤ کے حوالے سے عمل شروع ہونے میں ابھی وقت باقی ہے لیکن چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ چیئرمین 'بگ تھری' کے باہر سے آئے تو اچھا ہوگا۔

سابق چیئرمین ششانک منوہر دو ماہ قبل عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے لیکن آئی سی سی بورڈز میں اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ نئے چیئرمین کے انتخاب کے لیے دو تہائی یا عام اکثریت میں سے کونسا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

مزید پڑھیں: جب مشتعل افراد انتخاب عالم کو قتل کرنے پہنچے تو کیا ہوا؟

اس وقت عمران خواجہ آئی سی سی کے عبوری چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی نے کہا کہ کرکٹ آسٹریلیا، انگلش کرکٹ بورڈ اور بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا کی جانب سے متعارف کرائی گئی سیاست کے باعث اب یہ زیادہ اچھا ہوگا کہ کسی دوسرے بورڈ کا فرد آئی سی سی کی سربراہی کرے۔

انہوں نے معروف جریدے 'فوربز' سے گفتگو کرتے ہوئے آئی سی سی چیئرمین کے انتخاب میں ہونے والے التوا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت کی جانب سے 2014 میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سیاست متعارف کرائی گئی تھی، لیکن اب اس کے خاتمے میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اب یہ بات ان کے مفاد میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب کھیل کے لیے زیادہ موزوں یہی ہو گا کہ چیئرمین بگ تھری سے نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین اقبال قاسم کا استعفیٰ منظور

2003 سے 2006 تک چیئرمین کے منصب پر فائز رہنے والے احسان مانی کو بھی اس عہدے کی پیشکش کی گئی لیکن وہ خود آئی سی سی کی سربراہی سے دستبردار ہو چکے ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

انگلینڈ کے کولن گریوز اور بی سی سی آئی کے سارو گنگولی کو آئی سی سی چیئرمین کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے جبکہ اس فہرست میں نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈین بورڈ کے سربراہان کے نام بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر بورڈ میں مفادات کا ٹکراؤ ہے، میں نے گزشتہ 17سال کے دوران ایسا کبھی نہیں دیکھا اور اس طرح شفافیت کا امکان کم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے آئی سی سی کو مزید آزاد ڈائریکٹرز کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: میسی کا بارسلونا سے راہیں جدا نہ کرنے کا اعلان

2017 میں بگ تھری کی جگہ ایک نئے مالیاتی ماڈل نے جگہ لے لی تھی جس میں 2016 سے 2023 کے دوران میڈیا حقوق کی مد میں حاصل ہونے والے 2.7 ارب ڈالر میں سے ساڑھے 40 کروڑ ڈالر بھارت کو ملنے تھے۔

انگلینڈ کے کولن گریوز نے اس مالیاتی ماڈل میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے بھارتی کرکٹ بورڈ کے برعکس دنیا کے دیگر بورڈز کو بہت کم رقم ملتی ہے۔

مذکورہ ماڈل کے تحت انگلینڈ کرکٹ بورڈ کو 13.9 کروڑ ڈالر جبکہ پاکستان، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بورڈز کو 12.8 کروڑ ڈالر کی رقم ملتی ہے۔

احسان مانی نے کہا کہ صرف مالیاتی ماڈل کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انگلینڈ اور بھارت کی اجارہ داری کا معاملہ ہے جہاں یہ بگ تھری آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی خود لیتے ہیں، خود کو اس کی میزبانی کی فیس دیتے ہیں اور گیٹ منی اور مہمان نوازی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیمار سمیت پی ایس جی کے 3 کھلاڑی کورونا وائرس کا شکار

انہوں نے کہا کہ اگر یہ مالیاتی ماڈل برقرار رہا تو کچھ ملک اپنی بقا کی جنگ بھی نہیں لڑ سکیں گے۔

چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ ہم بھارت سے کھیلے بغیر چل رہے ہیں، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر یہ آسٹریلیا کے ساتھ ہو اور بھارت وہاں نہ جائے۔

احسان مانی نے امید ظاہر کی کہ 2023 سے 2031 کے درمیان پی سی بی کو ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق ملیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس عرصے میں ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں، ہم نے تین چار ایونٹس میں دلچسپی ظاہر کی ہے جس میں سے کچھ کی ہم متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر میزبانی کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں