کراچی میں خاتون کو موٹر سائیکل چلانے کا لائسنس دینے سے انکار

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2020
خاتون کی سوشل میڈیا پوسٹس وائرل ہوگئیں—اسکرین شاٹ/ ٹوئٹر/ فائل فوٹو: فیس بک
خاتون کی سوشل میڈیا پوسٹس وائرل ہوگئیں—اسکرین شاٹ/ ٹوئٹر/ فائل فوٹو: فیس بک

حال ہی میں ایک خاتون نے کراچی میں بائیک کے لائسنس کے حصول کے لیے سرکاری دفتر سے رابطہ کیا تھا لیکن نہ صرف انہیں لائسنس دینے سے منع کردیا گیا بلکہ سختی سے بتایا گیا کہ خواتین کو یہ لائسنسز دینے کی 'اجازت' نہیں ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیریں فیروزپوروالا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ موٹر سائیکل چلانے کی کلاسز لی تھیں اور وہ بائیک چلانے کے قابل ہونے پر پرسکون تھیں۔

انہوں نے لکھا کہ وہ ابھی گاڑی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور دیگر ٹرانسپورٹ سروسز کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے ان کے بجٹ پر بوجھ پڑ رہا تھا۔

شیریں فیروزپوروالا نے لکھا کہ تصور کریں کہ 8 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے کا یکطرفہ کرایہ 600 روپے (پیک ٹائمز میں کبھی کبھار 900 روپے) ادا کرنے پڑے، اس طرح لگ بھگ ایک دن میں (دفتر آنے اور جانے میں) 12 سو روپے لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے موٹر سائیکل لینے کا فیصلہ کیا۔

خاتون کے مطابق انہوں نے موٹر سائیکل چلانے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر افسوس انہیں ایک خاتون ہونے کی وجہ سے لائسنس دینے سے انکار کردیا گیا۔

خاتون کے مطابق سب کچھ ٹھیک تھا، تاہم جب کاؤنٹر پر موجود شخص نے ان کی تفصیلات سسٹم میں داخل کیں اور جب انہوں نے باور کروایا کہ انہیں بھی موٹر سائیکل کے لائسنس کی ضرورت ہے تو وہ شخص غصہ ہوگیا۔

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ کاؤنٹر پر موجود شخص نے انہیں کہا کہ آپ نکل جائیں یہاں سے، ہم لڑکیوں کو بائیک کا لائسنس نہیں دیتے، آپ عورت ہیں آپ گاڑی چلائیں'۔

یہ بھی پڑھیں: موٹر سائیکل پر خواتین مردوں کی طرح نہ بیٹھیں

شیریں فیروز والا نے مزید لکھا کہ میں نے اس بے تکے رول کی وجہ پوچھی لیکن ظاہر ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ مسلسل مجھے باہر جانے کے لیے کہتے رہے۔

بعدازاں انہوں نے ایک شخص کے ذریعے لائسنس آف کی دوسری برانچ سے تصدیق کی اور وہاں سے بھی یہی کہا گیا کہ وہ خواتین کو بائیک کا لائسنس نہیں دیتے۔

اپنی پوسٹ کے اختتام میں انہوں نے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ اور یہ کس طرح کے قوانین ہیں؟

خاتون کی ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹ پر کئی افراد نے بائیک کا لائسنس دینے والے عہدیداروں پر برہمی کا اظہار کیا اور اس بات پر بھی لوگوں نے غصے کا اظہار کیا کہ صرف ایک خاتون ہونے کے ناطے انہیں لائسنس دینے سے انکار کیا گیا۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی مینشن کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں خواتین کی موٹر سائیکل ریلی

مذکورہ معاملے پر شیریں فیروزپوروالا نے ڈان امیجز کو بتایا کہ ان کی سوشل میڈیا پوسٹس وائرل ہونے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کی طرح بہت ساری لڑکیوں کو ابتدائی طور پر لائسنس دینے سے انکار کردیا گیا تھا مگر کئی خواتین نے وہاں اسٹاف کے سامنے احتجاج کیا اور لائسنس کے بغیر جانے سے انکار کیا تو انہیں لائسنس مل گئے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ ایک بار پھر لائسنس کے حصول کے لیے دفتر جائیں گی اور اس بار ہر حال میں لائسنس لے کر ہی آئیں گی۔

انہوں نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ جب ایسے کوئی قوانین ہی موجود نہیں تو وہاں دفاتر میں بیٹھے لوگ اپنی مرضی سے کام کیوں کر رہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا یہ مطلب ہوا کہ کاؤنٹر کے پیچھے شخص کو اگر خواتین پسند نہیں ہیں تو وہ اپنی مرضی سے خواتین کو لائسنس دینے سے انکار کر سکتے ہیں۔

شیریں فیروزپوروالا نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کے لیے ہر کام مشکل اور مرد حضرات کے لیے آسان بنادیا گیا ہے؟

ان کے مطابق جن خواتین نے موٹر سائیکل کے لائسنس حاصل کرلیے وہ خوش قسمت تھیں کہ انہیں کسی زن بیزار مرد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں