اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی کیلئے کثیر الجماعتی کانفرنس آج ہوگی

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2020
اپوزیشن جماعتیں ایم پی سی میں حکومت مخالف حکمت عملی مرتب کریں گی—فائل فوٹو: مسلم لیگ (ن)
اپوزیشن جماعتیں ایم پی سی میں حکومت مخالف حکمت عملی مرتب کریں گی—فائل فوٹو: مسلم لیگ (ن)

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے زیر قیادت آج (اتوار) کو کثیر الجماعتی کانفرنس ہوگی جس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں موجود اتحادی حکومت کے خاتمے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فائیو اسٹار ہوٹل میں ہونے والی اس کثیر الجماعتی کانفرنس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک شرکا سے خطاب کریں گے۔

یہ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک سال سے زائد عرصے کے بعد یہ پہلی سیاسی واپسی ہے۔

نواز شریف کے علاوہ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی بذریعہ ویڈیو لنک ابندائیہ خطاب کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیونکہ ان کی صحت کی خرابی کے باعث وہ جسمانی طور پر کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکتے۔

مزید پڑھیں: اے پی سی میں نواز شریف کا خطاب نشر ہوا تو قانونی آپشنز استعمال کریں گے، شہباز گل

خیال رہے کہ نواز شریف جو علاج کی غرص سے لندن میں موجود ہیں اور جنہیں رواں ماہ کے آغاز میں احتساب عدالت، توشہ خانہ گاڑیوں کے ریفرنس میں اشتہاری قرار دے چکی ہے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت کی ہے کہ انٹروپول کے ذریعے ان کی گرفتاری یقینی بنائیں، وہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ان سے ٹیلی فونک رابطے اور باضابطہ دعوت دینے کے بعد کثیر الجماعتی کانفرنس سے خطاب کے لیے آمادہ ہوئے۔

ادھر نواز شریف کے کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے حکومتی وزرا اور مشیروں نے قرار دیا کہ 'اشتہاری مجرم اور سزا یافتہ شخص' سیاسی اجتماع سے خطاب نہیں کرسکتا ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر ٹیلی ویژن چینلز نے یہ تقریر نشر کی تو 'قانونی کارروائی' ہوگی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور دیگر قانونی آپشنز' کا استعمال کیا جائے گا اگر ایم پی سی سے نواز شریف کا خطاب ٹی وی چینلز پر نشر کیا گیا۔

شہباز گل نے لکھا کہ 'یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مفرور مجرم سیاسی سرگرمیاں کرے اور تقریریں کریں؟ شریف خاندان جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بول سکتا، یہ اتنے جھوٹے ہیں کہ بیماری پر بھی جھوٹ بولتے ہیں'۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے نواز شریف کی تقریر کو بلیک آؤٹ کرنے کی منصوبہ بندی پر تنقید کی جبکہ ان کی بیٹی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے بذریعہ ٹوئٹ تجویز دی کہ ان کی 'تقریر فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈٰیا پلیٹ فارمس کے ذریعے ٹیلی کاسٹ کرنی چاہیے کیونکہ پھر اسے پورے ملک میں بلاک نہیں کیا جاسکتا'۔

مریم نواز کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کے لیے پہلے ہی لاہور سے اسلام آباد پہنچ گئی ہیں اور وہ پارٹی کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں جانے والے 11 رکنی مسلم لیگی وفد کا حصہ ہوں گی۔

مسلم لیگ (ن) نے ہفتے کو باضابطہ طور پر اپنے وفد کا اعلان کیا تھا جو کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کرے گا، اس وفد میں خواجہ آصف، احسن اقبال، ایاز صادق، پرویز رشید، مریم نواز، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللہ، امیر مقام اور مریم اورنگزیب شامل ہوں گی۔

علاوہ ازیں کثیرالجماعتی کانفرنس کے میزبان کی حیثیت سے بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو کافی مصروف دن گزارا، انہوں نے پیپلزپارٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور ایجنڈا اور کانفرنس کے لیے انتظامات پر تبادلہ خیال کیا، یہی نہیں بلکہ انہوں نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان سے بھی بات چیت کی۔

اس کے علاوہ وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ گئے جہاں انہوں نے اپوزیشن کی طاقت کے ممکنہ ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا۔

قبل ازیں چیئرمین پی پی پی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو گروہوں کے سربراہان سردار اختر مینگل اور اسرااللہ زہری، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک سے بذریعہ ٹیلی فونک بات چیت کی۔

ادھر ڈان سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 12 اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے اور سربراہان اس کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ کانفرنس زرداری ہاؤس میں ہونی تھی لیکن اجتماع کا سائز دیکھتے ہوئے اور کووڈ 19 کی وجہ سے سماجی فاصلوں کو یقینی بنانے کے لیے بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کانفرنس ہوٹل میں منعقد کی جائے۔

وہی پارٹی اجلاس کے بعد زرداری ہاؤس میں پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے اعلان کیا کہ 'ہم اتوار کو حکومت کے اقدامات کے خلاف ایم پی سی میں حتمی فیصلہ کریں گے'۔

منقسم ایوان

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ابتدائیہ تقاریر اس کثیر الجماعتی کانفرنس کی حکمت عملی کا تعین کرے گی جس میں اپوزیشن لیڈرز شریک ہورہے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف آئندہ کی حکمت عملی پر منتقم مؤقف رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اے پی سی میں تمام جماعتیں حکومت سے نجات کا راستہ تلاش کریں گی، قمر زمان کائرہ

وہ کہتے ہیں کہ تقریباً تمام جماعتوں میں اس طرح کے عقابی عناصر بھی موجود ہیں جو پارلیمنٹ میں اپنی نشستوں کی قیمت پر بھی حکومت کے خلاف ایک مکمل سڑک پر احتجاج شروع کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب کچھ ایسے عناصر جو خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں موجود ہیں جو اس رائے کے خلاف ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ 'غیرجمہوری قوتیں' اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ماضی میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے دیے گئے غیرمعینہ مدت کے دھرنوں کی رائے کے خلاف ہے کیونکہ یہ دھرنے کوئی نتائج لانے میں بھی ناکام رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ 2 مرکزی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے یہ بات جے یو آئی (ف) کی قیادت کو پہنچائی جو حکومت کے خلاف ہر طرح کی جدوجہد کرنا چاہتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں