سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے خود کو ملازمت سے برطرف کیے جانے کا اقدام چیلنج کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کے معاملات دیکھنے کے لیے قائم ٹریبیونل پنجاب سب آرڈی نیٹ ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں دائر کی جانے والی اپیل میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ان کی برطرفی کا فیصلہ سنایا جو درست نہیں کیونکہ کمیٹی نے حقائق کا صحیح جائزہ نہیں لیا۔

ارشد ملک نے درخواست میں کہا کہ انہوں نے تمام فیصلے قانون کے مطابق کیے اور وہ مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے لہٰذا برطرفی کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

خیال رہے کہ جج ارشد ملک نے 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سابق جج ارشد ملک پر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دباؤ میں آکر سزا دینے کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ برس 6 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران جج ارشد ملک کی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیو کے کلپس دکھائے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں سابق جج نے ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے نواز شریف کو شدید دباؤ کی وجہ سے غیر منصفانہ سزا سنائی۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ معاملے کی انکوائری کے لیے جسٹس سردار احمد نعیم کو انکوائری جج مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی تھی، تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق جج ارشد، ’دباؤ پر فیصلہ‘ کرنے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، انکوائری رپورٹ

بعد ازاں جولائی 2020 میں لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔

بعد ازاںجج ارشد ملک کی عہدے سے برطرفی کا سبب بننے والی انکوائری رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمدردوں کے ’دباؤ‘ پر کوئی فیصلہ کیا۔

13 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بظاہر ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ملزم آفیسر کو موت یا جسمانی نقصان کا خوف لاحق ہوا ہو اور نہ ہی یہ بات دکھانے کی کوئی کوشش کی گئی کہ ملزم افسر متعلقہ افراد سے دور نہیں بھاگ سکتے تھے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں