سابق جج ارشد، ’دباؤ پر فیصلہ‘ کرنے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، انکوائری رپورٹ

اپ ڈیٹ 12 جولائ 2020
ریکارڈ، سابق جج کی نواز شریف کے مبینہ ہمدردوں سے مسلسل ملاقاتوں کو ثابت کرتے ہیں—فائل فوٹو:ڈان نیوز
ریکارڈ، سابق جج کی نواز شریف کے مبینہ ہمدردوں سے مسلسل ملاقاتوں کو ثابت کرتے ہیں—فائل فوٹو:ڈان نیوز

لاہور: جج ارشد ملک کی عہدے سے برطرفی کا سبب بننے والی انکوائری رپورٹ کے مطابق وہ اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمدردوں کے ’دباؤ‘ پر کوئی فیصلہ کیا۔

13 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بظاہر ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ملزم آفیسر کو موت یا جسمانی نقصان کا خوف لاحق ہوا ہو اور نہ ہی یہ بات دکھانے کی کوئی کوشش کی گئی کہ ملزم افسر متعلقہ افراد سے دور نہیں بھاگ سکتے تھے‘۔

لاہور ہائی کورٹ کی 7 رکنی انتظامی کمیٹی کی جانب سے تفویض کردہ انکوائری جسٹس سردار احمد نعیم نے کی۔

جج نے سابق ڈسٹرک اینڈ سینشن جج ارشد ملک پر بھاری جرمانہ کرنے کی تجویز دی تھی جنہوں نے اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پوسٹنگ کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی تھی اور فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف

انتظامی کمیٹی نے 3 جولائی کو انکوائری کمیٹی کی روشنی میں جج کی عہدے سے برطرفی کی منظوری دے دی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ریکارڈ، سابق جج کی نواز شریف کے مبینہ ہمدردوں مہر ناصر، ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ سے واقفیت اور ان افراد سے مسلسل ملاقاتوں کو ثابت کرتے ہیں اور ان کے احتسابی ریفرنس کے حوالے سے ہمیشہ کچھ مطالبے ہوتے تھے جبکہ ریکارڈ ثابت کرتے ہیں کہ جج تک ان کی ہمیشہ رسائی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریفرنسز کے فیصلے کے بعد جج ’جاتی امرا‘ گئے اور جب سابق وزیراعطم نواز شریف عمرے کے لیے گئے تو وہاں ان سے اور ان کے بیٹے حسین نواز سے ملاقات کی۔

مزید یہ کہ جج کے اپنے دفاع میں لکھی گئی تحریر میں بتایا گیا کہ ناصر بٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کی تیاری کے لیے ان سے ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: جج کی برطرفی کے بعد اب عدلیہ ان کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے، مریم نواز

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ملزم افسر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عمرے کے لیے گئے لیکن ایک مرتبہ پھر ناصر بٹ نے ان سے رابطہ کیا اور ارشد ملک کی حسین نواز سے مدینہ میں ملاقات ہوئی جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کوئی اتفاقی ملاقات نہیں بلکہ طے شدہ ملاقات تھی۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق جج نے اپنی دفاعی تحریر میں کہا کہ انہیں استعفیٰ دینے کے لیے حسین نواز کی جانب سے 50 کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی، ساتھ ہی سابق جج نے میاں محمد طارق سے بھی اپنی واقفیت کا اعتراف کیا جنہوں نے ان کی 2003 میں ملتان پوسٹنگ کے دوران من گھڑت ویڈیو بنائی تھی۔

دباؤ کے حوالے سے درخواست میں ایک قابل اعتراض ویڈیو پر ناصر بٹ کی جانب سے سنگین دھمکیوں کا ذکر کیا گیا جو بیان حلفی اور تحریری دفاع میں بھی موجود ہے لیکن ارشد ملک نے اس بلیک میلنگ کے حوالے سے کبھی حکام کو آگاہ نہیں کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ملزم افسر نے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ دباؤ کا نتیجہ تھا جبکہ عدالتی افسر ایک جانب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں بلیک میل کیا تو دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس کا فیصلہ بغیر کسی دباؤ، یا دھمکی کے کیا'۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل: ملزم طارق محمود کی درخواست ضمانت منظور

انکوائری رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ملزم نے ہی یہ بات شواہد سے ثابت نہیں کی کہ وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنی مرضی کے خلاف کام کیا اس کا مطلب وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے جرم کیا لیکن دباؤ کو وجہ بتا کر سزا سے معافی چاہتے ہیں'۔

انکوائری جج نے فیصلے میں لکھا کہ ’میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ دفاع ثابت نہیں ہوا اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی‘۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سابق جج ارشد ملک پر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دباؤ میں آکر سزا دینے کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ برس 6 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران جج ارشد ملک کی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیو کے کلپس دکھائے تھے۔

مزید پڑھیں: ’جج ویڈیو کیس میں ارشد ملک کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں سابق جج نے ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے نواز شریف کو شدید دباؤ کی وجہ سے غیر منصفانہ سزا سنائی۔

تاہم جج کے خلاف انکوائری میں مسلم لیگ (ن) کی پریس کانفرنس میں پیش کی گئی ویڈیو پر بات چیت یا غور نہیں کیا گیا تھا۔

جج ارشد ملک کو صرف ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر پنجاب سول سرونٹ رولز کے تحت عہدے سے فارغ کیا گیا تھا۔

ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرکزی جرم متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر اخباری بیان جاری کرنا اور زیر التوا کیسز میں فریقین سے بات چیت کرنا شامل تھا۔


یہ خبر 12 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں