لکھاری لمس میں سیاسیات اور سماجیات پڑھاتے ہیں۔
لکھاری لمس میں سیاسیات اور سماجیات پڑھاتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وزیرِاعظم عمران خان نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے نزدیک وہ کون سی وجوہات اور اشارے ہیں جو ملک میں جنسی جرائم کی وجہ بن رہے ہیں اور معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا پتا دیتے ہیں۔

اپنے تجزیے میں انہوں نے زیادہ زور ملک میں برھتی ہوئی مغربیت پر دیا جس کا ذریعہ بولی وڈ انڈسٹری یا غیر ملکی اثر و رسوخ بنی۔ وزیرِاعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ذریعے پھیلنے والی یہی مغربی ثقافت ہے جس کی وجہ سے بھارت دنیا میں ریپ کیپیٹل بنا۔

وزیرِاعظم اور ملک کے دیگر سماجی قدامت پسندوں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے عالمی منظرنامے میں اس مغربیت کا مظہر روایتی خاندانی نظام کا خاتمہ ہے جس کے نتیجے میں غیر شادی شدہ اور طلاق یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ روایتی خاندانی نظام کو اکثر ایک مثالی نظام سمجھا جاتا ہے تاہم اس کی مناسب تعریف شاید ہی کی گئی ہو۔ یہ بات واضح نہیں کہ اس نظام میں صرف ایک خاندان آتا ہے یا پھر مشترکہ خاندان، یا پھر قبائل اور برادری کی بنیاد پر قائم خاندان بھی اس میں شامل ہیں۔ اس مبہم اصطلاح کا مطلب (پدر شاہی کے علاوہ) جو بھی ہو اس کا موازنہ اکثر دوسروں سے منقطع افراد، خاندانی رشتوں سے بے بہرہ اور اخلاقی زوال کے سمندر میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے مبالغہ انگیز خیال سے کیا جاتا ہے۔

وزیرِاعظم نے جن نکات کا ذکر کیا وہ پاکستان اور دنیا کے کسی دوسرے ملک کے لیے نئے نہیں ہیں۔ آپ کو ایسے ہی خیالات امریکی قدامت پسندوں (جیسا کہ ٹی پارٹی تحریک سے منسلک افراد)، برطانیہ میں متوسط طبقے کے انجلیکن قدامت پسندوں، لاطینی امریکا کے مختلف عیسائی طبقوں اور بھارت میں آر ایس ایس جیسی تنظیموں میں بھی دیکھنے کو ملیں گے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ ان خیالات کا استعمال غیر مغربی (اور مسلم) معاشروں میں روایتی خاندانی نظام کو فروغ دینے کے لیے کیا جارہا ہے جو مبیّنہ طور پر ہولناک معاشرتی اور جنسی تشدد سے حفاظت فراہم کرتا ہے۔

اس خیال میں دنیا کا ایک خاص تصور بھی پوشیدہ ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں مغربیت اور لبرل الزم پر مشتمل مخصوص ثقافتی نظریے اور علامات باہر سے مسلط ہونے والی ایسی چیزیں ہیں جو انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، جس میں خواتین کے خلاف تشدد پر مائل ہونا بھی شامل ہے۔

یہ بات کُلی طور پر غلط بھی نہیں ہے۔ نظریات، ثقافت اور معاشرتی اقدار یقیناً جارحانہ رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اسے صرف کسی ایک نظریے یا ایک قسم کی ثقافت تک محدود کرنا درست نہیں ہے۔

خواتین پر تشدد اور اس قسم کی دیگر حرکات جو اخلاقی پستی کے زمرے میں آتی ہیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ یہ اس وقت بھی ہوا کرتی تھیں جب نہ ہی گلوبلائزیشن کا وجود تھا اور نہ ہی بولی وڈ کا۔ اس قسم کے معاشرتی تشدد کا ارتکاب اس وقت بھی ہوا کرتا تھا جب معاشرے پوری طرح روایتی خاندانی نظام کی بنیاد پر قائم تھے۔ اس وجہ سے مقامی قدامت پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا موازنہ درست نہیں ہے۔

تاہم دلیل میں اس واضح خامی کے باوجود اگر آگے دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہو اگر نظریات اور ثقافت میں آنے والی تبدیلی جو پاکستان میں قدامت پسندوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے کسی اور چیز سے متعلق ہو۔ کیا ہو اگر اس کا تعلق معاشرے کی مادی بنیاد میں ہونے والی تبدیلی سے ہو۔

اس نکتے کی وضاحت کے لیے امریکا کی سماجی تاریخ کے ایک باب پر نظر ڈالنا بہتر ہوگا۔ امریکا کو پاکستان کا قدامت پسند طبقہ ایک انتہا کے طور پر دیکھتا ہے۔ شمالی امریکا میں آباد ہونے والے اوّلین آباد کار پیوریٹن عیسائی تھے جنہوں نے 17ویں صدی کے کیتھولک مذہب کی اخلاقی پستی کے خلاف انگریزی چرچ میں اصلاحات کی جنگ لڑی تھی۔ ان کی تحریک کا مرکز نجات اور خاندانی نظام کی تقدیس تھا جس کی بنیاد مذہبی کٹر پن تھا۔

18ویں اور 19ویں صدی میں پہلی اور دوسری عظیم بیداری کے دوران یہ خاندانی نظام اور اقدار ایک بار پھر توجہ کے مرکز بنے جب چارلس فِینی جیسے مذہبی رہنماؤں نے معاشرے کے اخلاقی زوال کے خلاف متوسط طبقے کے افراد کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔

تو آخر ایک ایسے ملک کے اخلاقی نظام اور ثقافتی اقدار کو بار بار تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آئی جسے معاشرتی قدامت پسندوں نے تشکیل دیا ہو؟ کیا 200 سال پہلے بھی بولی وڈ امریکی معاشرے کے اخلاقی زوال کا سبب بنا تھا؟

اس کا آسان جواب یہ ہے کہ لوگوں کو خوف کا شکار کرنے والی یہ ثقافتی تبدیلیاں اس لیے پیدا ہوئیں کیونکہ معاشرے کے ظاہری خدوخال بدلنے لگے۔ 19ویں صدی میں بڑے پیمانے پر صنعت کاری، شہر کاری اور نقل مکانی ہوئی۔ لوگوں کو غربت اور نسلی معاشی تعصب سے بچنے کے لیے مغرب یا شمال کی جانب ہجرت کرنا پڑی۔ انہیں سماجی و معاشی بہتری کے لیے بڑے خاندانی نظام سے الگ ہونا پڑا۔

اور پھر جیسا کہ متوقع تھا کہ اس طرح کی تبدیلیوں کے نتیجے میں پہلے اخلاق اور اقدار پر شبہات پیدا ہوئے اور پھر ان میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ نیویارک جیسے شہر میں گندم کی صنعت کی وجہ سے بہت زیادہ تارکینِ وطن مزدور آئے جس کی وجہ سے وہاں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

پادری چارلس فِینی نے بھی نیویارک کے پرانے اور مستحکم حیثیت کے حامل افراد میں اپنا ایک نام بنالیا تھا۔ ان روایت پسند افراد کے لیے اخلاقی اضطراب کی ایک حد تک وجہ ملازمت کی تلاش میں آنے والے مرد اور بلآخر خواتین تھیں۔ اس کی بنیاد معاشرے میں پیچھے رہ جانے کا خوف تھا جس کا تعلق سماجی و معاشی حیثیت (اور کچھ حد تک جنس) کے ساتھ بھی تھا۔

پاکستان 19ویں صدی کا نیویارک تو نہیں ہے تاہم یہ ملک ہر اس جگہ کی طرح ہے جو معاشی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہو۔ پاکستان اور قدیم نیویارک میں جو چیز مشترک ہے وہ روایتی ڈھانچے اور معاشرے میں پیدا ہونے والے جمود کی سُست روی کے ساتھ تباہی ہے۔

جیسے جیسے نئے معاشی مواقع اور رکاوٹیں سامنے آئیں گی مشترکہ خاندان انفرادی خاندانوں میں تقسیم ہوں گے جو تارکینِ وطن مردوں کے لیے راستہ تیار کرے گا جس کے نتیجے میں خواتین کے لیے زیادہ نقل و حرکت ممکن ہوگی۔ اور جب تک معاشی تبدیلی کا عمل جاری رہے گا اس ثقافتی تبدیلی کا سفر بھی جاری رہے گا۔ کبھی یہ تبدیلی اخلاقی اضطراب کی بنیاد پر ہوگی تو کبھی روایت پسندوں کی جانب سے اختیار کردہ پدر شاہی تشدد کی وجہ سے، لیکن ان کی خفگی کے لیے یہ عمل جاری رہے گا۔


یہ مضمون 5 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں