اہلکاروں کے مس کنڈکٹ پر ’پولیس کورٹ مارشل‘ متعارف کروانے کی تجویز

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2020
سی سی پی او نے کہا کہ محکمہ پولیس کی موجودہ قواعد نے پولیس افسران کے مسلسل غلط افعال کا ازالہ نہیں کیا —فائل فوٹو: ای او ایس
سی سی پی او نے کہا کہ محکمہ پولیس کی موجودہ قواعد نے پولیس افسران کے مسلسل غلط افعال کا ازالہ نہیں کیا —فائل فوٹو: ای او ایس

لاہور: عہدیداروں کو سزا دینے کے موجودہ نظام میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لاہور کیپٹل سٹی پولیس افسر عمر شیخ نے پاک فوج کی طرز پر پولیس میں ’کورٹ مارشل‘ متعارف کروانے کی تجویز دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان تجاویز کا مقصد ’نافرمان، متشدد اور ناگوار‘ ملازمین کو سزا دینا اور پولیس اسٹیشن، کیپٹل پولیس کے دفاتر میں آنے والے عوام کو ریلیف اور تحفظ کا احساس کرانا ہے۔

اپنی تجاویز انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس انعام غنی کے پاس جمع کرواتے ہوئے سی سی پی او لاہور نے سفارش کی صوبائی حکومت ’پولیس کورٹ مارشل‘ متعارف کروانے کے لیے آئین کی دفعہ 8(3) کے تحت نئی قانون سازی متعارف کرواسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پولیس تشدد سے ہلاکت کا تیسرا واقعہ، مقدمے میں 6 اہلکار نامزد

سی سی پی او نے جمع کروائی گئی تجاویز میں کہا کہ محکمہ پولیس کے موجودہ قواعد نے پولیس افسران کے مسلسل غلط افعال کا ازالہ نہیں کیا، جو محکمے کی بدنامی کا سبب اور صوبے میں امن و امان کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پولیس ڈپارٹمنٹ کے نظم وضبط کے قواعد پر نظر ثانی کا بہترین وقت ہے بجائے اس کے کہ صوبے میں بہتر پولیسنگ اور عوام کو خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے احتساب کا نیا نظام وضع کیا جائے۔

سی سی پی او نے اپنے خط میں بتایا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ہر سال 25 سے 30 فیصد فورس کا احتساب کیا جاتا ہے لیکن اہلکاروں کے رویوں اور طریقہ کار میں کوئی واضح بہتری نہیں آئی اور میڈیا، غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) مسلسل پولیس کے بد افعالیوں کی شکایت کرتی ہیں۔

گزشتہ 5 برس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2015 میں پنجاب پولیس کے 57 ہزار 138 اہلکارروں کو مختلف الزامات پر سزا سنائی گئی جس میں مس کنڈکٹ، نافرمانی، غبن، رشوت، ناقص تفتیش، حراست میں قتل وغیرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں؛ سینئر پولیس افسران نے سی سی پی او کے خلاف 'مشترکہ بیان' جاری کردیا

انہوں نے بتایا کہ 2016 میں سزا پانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 61 ہزار 422، 2017 میں 95 ہزار 521 تھی جبکہ 2018 میں 82 ہزار 170 پولیس اہلکاروں/افسران کو سزا دی گئی۔

سال 2019 میں آئی جی پنجاب نے سینئر افسران کا معاملہ اٹھانے پر پولیس میں سزا کی شرح میں کمی کی پالیسی متعارف کروائی تھی جس کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ زیادہ سزائیں فورس کے مورال کو کم کررہی ہیں۔

اگرچہ 2019 میں پنجاب پولیس کے 61 ہزار 573 اہلکاروں/افسران کو چھوٹی بڑی سزائیں دی گئیں لیکن عوام عادی خلاف ورزی کرنے والوں کے باعث اب بھی مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔

سی سی پی او لاہور نے کہا کہ محکمہ پولیس کی متعدد فیلڈز یا یونٹس میں عملے بالخصوص اکاؤنٹس برانچ کے اہلکاروں کے مس کنڈنکٹ کو فنڈ میں غبن کی صورت میں رپورٹ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سی سی پی او کے ہٹائے جانے تک’ آئی جی پی پنجاب نے فرائض انجام دینے سے انکار کردیا

انہوں نے کہا کہ پولیس کے احتساب کے لیے اس قسم کے قانون کی عدم موجودگی پولیس فورس کے نظم و ضبط میں بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے پولیس انسانی حقوق کے کارکنان، این جی اوز، میڈیا، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کا مستقل نشانہ بنتی رہتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں