انتظار قتل کیس: عینی شاہد 'پولیس اہلکاروں' کو شناخت کرنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2020
مدیحہ کیانی نے مزید کہا کہ انتظار احمد نے اپنے والد سے میری ملازمت کے بارے میں بات کرنے کا وعدہ کیا تھا—فائل فوٹو
مدیحہ کیانی نے مزید کہا کہ انتظار احمد نے اپنے والد سے میری ملازمت کے بارے میں بات کرنے کا وعدہ کیا تھا—فائل فوٹو

کراچی: ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں 'منصوبہ بندی' کے تحت نوعمر انتظار احمد کے قتل سے متعلق کیس میں اہم گواہ مدیحہ کیانی واقعے میں مبینہ طور پر ملوث پولیس اہلکاروں کی شناخت کرنے میں ناکام رہی۔

اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے 8 اہلکاروں بشمول اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) طارق محمود، انسپکٹرز اظہر احسن اور طارق رحیم، ہیڈ کانسٹیبل شاہد اور کانسٹیبل غلام عباس، فواد خان، محمد دانیال اور بلال رشید پر ابتدائی طور پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: انصاف نہ ملا تو قبرستان میں بیٹھ جائیں گے، والد

واضح رہے یکم اکتوبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے بار بار نوٹسز جاری کرنے کے باوجود عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ نہ کرانے پر اہم گواہ مدیحہ کیانی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے بارہویں جج کے روبرو ملزمان کو پیش کیا گیا۔

واقعے کی عینی شاہد مدیحہ کیانی عدالت میں پیش ہوئیں اور ملزمان کی شناخت کرنے میں ناکام رہی۔

مقدمے میں گواہی ریکارڈ کراتے ہوئے مدیحہ کیانی نے کہا کہ مبینہ واقعہ پیش آنے سے 4 روز قبل سلیمان کے توسط سے انتظار احمد سے ملاقات ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتظار احمد نے اپنے والد سے میری ملازمت کے بارے میں بات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ واقعے والے دن وہ انتظار احمد کے ساتھ باہر گئی اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار احمد کا قتل منصوبہ بندی سے ہوا، مدیحہ کیانی

مدیحہ کیانی نے کہا کہ انہوں نے کچھ وقت جوس شاپ پر گزارا اور پھر وہاں سے چلے گئے۔

عینی شاہد نے بتایا کہ خیابان بخاری پہنچنے پر دو کاروں نے انتظار احمد کی کار کو روکا تب وہ کار کی نشست پر نیند کی کیفیت میں نیم دراز تھیں۔

انہوں نے کہا کہ لہٰذا میں نے صرف ایک ہاتھ دیکھا جس نے انتظار احمد کو رکنے کا اشارہ کیا اور پھر جانے کو کہا، تاہم وہ 'کسی بھی شخص کو دیکھنے' میں ناکام رہی۔

عینی شاہد نے گواہی دی کہ میں نے انتظار احمد سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہے لیکن انتظار نے لاعلمی ظاہر کی اور خاموش رہا۔

انہوں نے عدالت میں گواہی دی کہ اسی اثنا میں کسی نے پیچھے سے فائرنگ شروع کردی۔

مدیحہ کیانی نے بتایا کہ انتظار احمد زخمی حالت میں اسٹیئرنگ وہیل پر اپنا کنٹرول کھو چکا تھا جس کی وجہ سے ان کی کار اوپن گٹر میں رک گئی۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل: ’غلطی سے زیادہ لیکن مجرمانہ سازش نہیں‘

عینی شاہد نے بتایا کہ واقعے کے بعد وہ رکشے میں روانہ ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور خوف زدہ حالت میں گھر پہنچی۔

مدیحہ کیانی نے کہا کہ ان کے اہل خانہ نے ان سے روپوش رہنے کو کہا لیکن مبینہ واقعے کے 3 دن بعد میں نے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

گواہ ان ملزمان کی شناخت کرنے میں ناکام رہی جنہیں جیل میں پیش کیا گیا تھا۔

مدیحہ کیانی نے کہا کہ اس واقعے کے بعد وہ انتظار احمد کے والد سے تعزیت کرنے گئی تھیں۔

گواہ نے بتایا کہ انہیں مبینہ طور پر شکایت کنندہ کے وکیل کے گھر لے جایا گیا جہاں ان سے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں ملزموں کا نام لینے کو کہا گیا، لیکن میں نے اپنے بیان میں کسی کا نام نہیں لیا۔

ملزم طارق رحیم کے وکیل ایڈووکیٹ وقار عالم نے گواہ سے پوچھا کہ روکنے پر انتظار نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی کیوں کہ اس کی گاڑی میں سے نشہ آور چیز ملی ہیں۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 27 جنوری تک کی توسیع

گواہ نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ انتظار احمد کے پاس منشیات ہو۔

انتظار قتل میں کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبلز اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: مفرور ملزم کی درخواست ضمانت منظور

بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

علاوہ ازیں مقتول کی ابتدائی فرانزک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں