صحافی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکومت اور پیمرا کو نوٹس

17 اکتوبر 2020
صحافی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت اور پیمرا کو نوٹس جاری کردیے— فائل فوٹو: اے ایف پی
صحافی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت اور پیمرا کو نوٹس جاری کردیے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست پر وزارت داخلہ اور اطلاعات کے سیکریٹری، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین اور انسپکٹر جنرل کو اسلام آباد کے نوٹس جاری کردیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مذکورہ بالا جواب دہندگان سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت مزید 15 دن کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی

درخواست گزار فخر درانی انگریزی زبان کے روزنامہ میں کام کرتے ہیں۔

فخر درانی کے وکیل عمران شفیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار کے خلاف داغدار مہم کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے رشتہ داروں کی ملکیت والی جائیدادوں کے بارے میں کہانی درج شائع کی تھی۔

وکیل نے بتایا کہ پاکستانی نژاد نسل سے تعلق رکھنے والی ایک برطانوی خاتون صبیحہ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس بارے میں معلومات شائع کیں اور جیسا کہ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک کمپنی جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ملکیت ہے، اس کمپنی کا نام باجو ایل ایل سی ہے۔

خاتون کے اکاؤنٹ سے جاری کردہ ٹوئٹس کے ایک سلسلہ میں دعویٰ کیا گیا کہ باجوہ فیملی باجو ایل ایل سی بینر کے تحت ایک فرنچائز پاپا جانز پیزا کی مالک ہے، صحافی کے وکیل عمران شفیق نے بتایا کہ ٹوئٹس نے سوشل میڈیا پر ایک گرما گرم بحث پیدا کردی۔

یہ بھی پڑھیں: قابل اعتراض ٹوئٹس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کو گرفتار کرنے سے روک دیا

عمران شفیق کے مطابق ایک ٹی وی چینل نے 16 ستمبر کو ایک خصوصی خبر نشر کی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ درخواست گزار سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کو لیک کرنے میں ملوث تھا، اس رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ درخواست گزار فخر درانی نے بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر سے یہ لیک ہونے والے اعداد و شمار شیئر کیے ہیں۔

عمران شفیق کے مطابق چینل میرے مؤکل کے مالکان کا حریف ہے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ درخواست گزار کو ہراساں نہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں