گھریلو صارفین کے لیے گیس پائپ لائن نیٹ ورک کی توسیع کو ختم کیے جانے کا امکان

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2020
یہ توانائی کے شعبے میں وسیع اصلاحات کے منصوبے کا حصہ ہے جسے متعلقہ وزارتوں نے وزیر اعظم کو پیش کرنے کے بعد حتمی شکل دی ہے۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو
یہ توانائی کے شعبے میں وسیع اصلاحات کے منصوبے کا حصہ ہے جسے متعلقہ وزارتوں نے وزیر اعظم کو پیش کرنے کے بعد حتمی شکل دی ہے۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت گھریلو صارفین کے لیے گیس پائپ لائن نیٹ ورک کی توسیع کو ختم کرنے، ساحلوں پر فرنس آئل کے تمام انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو ڈی سیلینیشن پلانٹس میں تبدیل کرنے اور توانائی کے شعبے میں ہونے والی تمام سرمایہ کاری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائرہ کار سے استثنیٰ دینے پر غور کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ توانائی کے شعبے میں وسیع اصلاحات کے منصوبے کا ایک حصہ ہے جسے متعلقہ وزارتوں نے فی الحال وزیر اعظم عمران خان کو پیش کرنے کے بعد حتمی شکل دی ہے۔

توانائی کے شعبے میں چند کام یا کاروبار یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے آؤٹ سورسنگ کے ذریعے اصلاحات کی کامیابی کے لیے حکومت کو دو سرمایہ کاروں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: سندھ میں موسم سرما کے دوران گیس کی شدید قلت کا امکان

اس پر غور کیا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان یا سپریم کورٹ اس کے باضابطہ رول آؤٹ ہونے سے قبل مجوزہ انتظامات میں سے کسی کی توثیق کرے اور ’آنے والے سرمایہ کاروں/آپریٹرز پر سے نیب کی نوعیت کی سابقہ انکوائریز پر قانون کے ذریعے معاوضہ دیا جائے جس میں کسی غیر اخلاقی یا غیر قانونی عمل کے کیسز کو استثنیٰ حاصل ہوگی۔

منصوبے کے تحت ساحلی پٹی پر قائم تمام فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھروں کو آئی پی پی یا تعمیر، آپریشن، ملکیت اور تبادلے کے تحت سمندری پانی کے ریورس اوسموسس ڈی سیلینیشن کے لیے استعمال کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حبکو نے پہلے ہی اس طرح کے امکان پر غور کیا ہے اور حکام سے اس پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

1994 کے بجلی کی پالیسی سے قبل حبکو کے 1200 میگاواٹ کے پرانے پلانٹ کی بجلی کی خریداری کے معاہدے کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے 300-600 ایم آئی جی ڈی (ملین امپیریل گیلن فی یوم) پانی کی خریداری کے معاہدے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

پاور ایس او ایز کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 5-7 سال کے انتظامات کے معاہدے کے لیے مسابقتی بولی کے ذریعے انہیں نجی شعبے کے لیے پیش کرنے پر غور کررہی ہے۔

چند کیسز میں رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کے علاوہ کسی ملازم کو برطرف نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافے کا امکان

منصوبے کے تحت گیس کی دو کمپنیاں، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی، کو بجلی کی ترسیلی کمپنی کی طرز پر وفاقی حکومت کی ملکیت میں ٹرانسمیشن کمپنی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو جدا کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

یہ ہر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ضائع ہونے والی گیس اور آگے ہونے والے دیگر نقصانات کا حساب کتاب کرے اور اسے کم کرے۔

اس منصوبے میں نئے درآمدی ایندھن (یعنی آر ایل این جی اور کوئلہ) پر مبنی بجلی کے منصوبوں پر بھی پابندی برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے۔

مقامی یا درآمد لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے ذریعے گھریلو شعبے کے لیے کوئی اضافی پائپ لائن گیس نہیں ہوگی جس میں غریب آبادی والے حصے کو احساس/بی آئی ایس پی کیش منتقلی پروگرام کے ذریعے سبسڈی دی جائے گی۔

اس وقت گھریلو گیس کنکشن کے لیے تقریباً 30 لاکھ درخواستیں زیر التوا ہیں جبکہ گیس کی کمپنیاں ایک سال میں زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ کنیکشن فراہم کرسکتی ہیں۔

گیس کی کمی کی وجہ سے مطالبے کو روکنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں