ڈریپ کی جانب سے اہم معاملات نظرانداز کیے جانے پر ماہرین پریشان

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2020
ماہرین نے ڈریپ کی جانب سے اہم معاملات نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے — فوٹو: اے پی پی
ماہرین نے ڈریپ کی جانب سے اہم معاملات نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے — فوٹو: اے پی پی

کراچی: اگرچہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈرپ) فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو نگراں بنانے کی مکمل ذمہ دار ہے لیکن سینئر سرکاری عہدیداروں نے 1976 کے ڈرگ ایکٹ کی خلاف ورزی اور اتھارٹی کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کے طریقہ کار سمیت اہم امور نظرانداز کرنے پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں میں بہت سارے سینئر عہدیداروں نے عام لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈریپ کے کام کو ہموار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے دور میں یا تو ان کا تبادلہ کردیا گیا، چھوڑنے پر مجبور کیا گیا یا برطرف کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: ڈریپ نے پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی کووڈ ٹیسٹنگ کٹ کی منظوری دیدی

گزشتہ ماہ اتھارٹی ایک بار پھر منظر عام پر آ گئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈریپ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر شیخ اختر حسین کی بحالی کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی جنہیں ان کے عہدے سے اس لیے ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک نان چارٹرڈ یونیورسٹی سے تھی، عدالت نے موجودہ سی ای او عاصم رؤف کے تقرر کے خلاف بھی فیصلہ سنایا تھا۔

بہت سارے سینئر بیوروکریٹس نے نجی طور پر ڈریپ کی خامیوں کو تسلیم کیا تھا لیکن ایک سینئر افسر نے ڈرگ ریگولیٹرز کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مواصلات کے موجودہ اسپیشل سیکریٹری ڈاکٹر تنویر احمد قریشی، جو اس سے قبل وفاقی وزیر صحت کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے حال ہی میں نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے سیکریٹری امیر اشرف خواجہ کو ایک خط بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اپنے دور حکومت میں ڈریپ کے ادارہ جاتی فریم ورک میں بہت ساری خامیاں پائی گئیں۔

دو صفحات پر مشتمل ایک خط کی نقل ڈان کو بھی ملی جس میں کہا گیا کہ ادویات کی حفاظت، معیار پر کنٹرول، مینوفیکچرنگ، لائسنس سازی اور ضروری اور غیر ضروری ادویات کی قیمتوں کے تعین سے متعلق اہم امور کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈریپ کے سربراہ پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری پر برطرف

ڈاکٹر تنویر قریشی نے بتایا کہ قومی سطح پر فارماسولوجیکل ڈرگ چین کو منظم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر گلوبل سپلائی چین کے ساتھ ڈریپ کا اہم کردار تھا، لائسنس کے امور، دوا سازی، معیار یقینی بنانے کے لیے ادویات کی درآمد سے لے کر نسخوں والی اور نسخے کے بغیر بکنے والی ادویات کے سلسلے میں ملک میں صحت کی سیکیورٹی میں ڈریپ کا کردار انتہائی اہم ہے۔

ڈاکٹر تنویر قریشی نے بتایا کہ کووڈ۔19 نے ڈریپ کو درپیش ادارہ جاتی کوتاہیوں سمیت صحت کی دیکھ بھال کے نازک ڈھانچے کو بے نقاب کردیا ہے، انہوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ آئندہ کسی بھی طرح کی بیماریوں کے بہتر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات لائیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈریپ کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ قواعد وضع کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے اور اتھارٹی کو ایڈہاک بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درمیانے سے طویل مدت تک، قانونی اور انتظامی صفر کی اصلاح ضروری ہے تاکہ ایڈ ہاک اور اس کے عارضی انتظامات کے عمل کو روکا جاسکے جس سے ڈریپ کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ تمام افسران جن کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا یا بغیر عمل طے کیے گھر بھیج دیا گیا تھا، انہیں واپس لایا جائے۔

مزید پڑھیں: غیرقانونی اسٹنٹ: درآمد اور فروخت میں سرکاری اداروں کی نااہلی

ڈاکٹر تنویر احمد قریشی بظاہر سابق ڈریپ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر روحی بانو عبید کی طرف اشارہ کررہے تھے جنہیں اس وقت استعفیٰ دینا پڑا تھا جب ان کی جانب سے اتھارٹی میں تیزی سے پھیلتی بدعنوانی کے الزامات پر نیشنل ہیلتھ سروسز نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ایک اور سابقہ ​​ڈریپ آفیسر اور ڈاکٹر روحی کے شریک حیات ڈاکٹر عبید علی کی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے سینئر بیوروکریٹ نے کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ڈریپ کے معاملات پر گفتگو کے دوران میں نے ڈاکٹر عبید کو باشعور اور باخبر شخص پایا، و اتھارٹی کے لیے ایک اثاثہ تھے۔

دوا سازی کی صنعت میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے متعدد واقعات کو اجاگر کرنے والے ڈاکٹر عبید علی فی الحال فیڈرل سروسز ٹریبونل کے سامنے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں اس سال کے شروع میں برطرف کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی ڈریپ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت

ڈاکٹر تنویر قریشی نے بغیر کسی تاخیر کے ڈریپ اہلکاروں کو درپیش انتظامی اور تادیبی مقدمات کے فیصلے کی ضرورت پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملات طویل عرصے سے وزارت اور دیگر فورمز پر زیر سماعت ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیرونی وجوہات کی وجہ سے ان کا فیصلہ نہیں ہو سکا، پہلے ہی ادارہ جاتی لڑائی نے ڈریپ کی ترقی و افزائش کو روکا ہے جس کے نتیجے میں اس کے عمل کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ کاروبار میں صلاحیت کے مسائل بھی درپیش ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں