وزیراعظم، جزائر کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کے خواہاں

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2020
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم سےملاقات کی—تصویر: پی آئی ڈی
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم سےملاقات کی—تصویر: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وفاق کی جانب سے کراچی کی ساحلی پٹی پر واقعے 2 جزائر کا کنٹرول سنبھالنے کے اقدام کے خلاف اپوزیشن کے سخت مؤقف پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے خواہاں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ڈان کو بتایا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ حکومت اس معاملے پر سندھ کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے‘۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں اہم معاملات بشمول پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) آرڈیننس 2020 اور دیر معاملات پر بات چیت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: جزائر سے متعلق آرڈیننس کے خلاف درخواست پر وفاقی، صوبائی حکام کو نوٹسز جاری

ملاقات میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں زیر سماعت مختلف کیسز بشمول فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے متعلق مقدمات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔

وزیراعظم نے عدالتوں میں مقدمات کی مؤثر پیروی پر اٹارنی جنرل اور ان کی ٹیم کو سراہا اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق 120 احتساب عدالتوں کے قیام کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔

دریں اثنا ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت، سندھ ہائی کورٹ میں جزائر کے انتظامی کنٹرول سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے آغاز کا انتظار کررہی ہے جس میں وفاق پہلی مرتبہ اپنا مؤقف پیش کرے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا تفصیلی نقطہ نظر ناقدین کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کو بھی حقیقی صورتحال سمجھنے میں مدد دے گا‘۔

مزید پڑھیں: جزائر سے متعلق آرڈیننس پارلیمان میں نہ پیش کرنے پر پیپلزپارٹی کی حکومت پر تنقید

جزائر کس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں کہ جواب میں ذرائع نے کہا کہ سندھ اور وفاق دونوں کا مؤقف جائز ہے لیکن قومی معاملات پر ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہیے۔

ذرائع نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو یقین ہے کہ اگر وفاق اور صوبے قومی مفاد کے معاملات پر ایک دوسرے سے محاذ آرائی کریں گے تو ملک میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔

خیال رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ایک آرڈیننس نافذ کیا جس کا مقصد وفاق کو سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کا کنٹرول سنبھالنے کی اجازت دینا تھا۔

مذکورہ آرڈیننس کے نفاذ پر سندھ کی حکمراں جماعت پی پی پی کی جانب سے شدید تنقید دیکھنے میں آئی اور چیئرمین پی پی پی نے اس اقدام کو مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی الحاق کے بھارتی اقدام سے تشبیہ دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کابینہ نے جزائر سے متعلق آرڈیننس واپس لینے تک وفاق سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا

آرڈیننس کے نفاذ کے 2 ہفتوں بعد صدر مملکت عارف علوی نے کاروباری افراد بشمول ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈی اور عارف حبیب سے ملاقات کی تھی جس میں بنڈال جزیرے پر ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا تھا۔

خیال رہے کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی، جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔

جزائر کا معاملہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایجنڈے میں بھی ترجیحی طور پر شامل ہے۔

اس سلسلے میں منگل کے روز اپوزیشن نے آرڈیننس کے خلاف احتجاجاً سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا تھا۔

مزید پڑھیں: آئی لینڈ آرڈیننس پر اپوزیشن کا سینیٹ سے واک آؤٹ

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما، جنہوں نے آئین کے آرٹیکل 152 کا حوالہ دیا، جس میں لکھا ہے کہ اگر وفاق کسی ایسی اراضی کو جو کسی صوبے میں واقع ہو، کسی ایسے مقصد کے لیے جو کسی ایسے معاملے سے متعلق ہو جس کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو قوانین وضع کرنے کا اختیار ہو، حال کرنا ضروری خیال کرے تو وہ اس صوبے کو حکم دے سکے گا کہ وہ اس اراضی کو وفاق کی طرف سے اور اس کے خرچ پر حاصل کرے یا اگر اراضی صوبہ کی ملکیت ہو تو اسے وفاق کے نام ایسی شرائط پر منتقل کردے جو طے پا جائیں یا طے نہ پانے کی صورت میں چیف جسٹس پاکستان کے مقرر کردہ کسی ثالث کی طرف سے طے کی جائیں۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا تھا کہ چونکہ صوبے کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لہٰذا آرڈیننس کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ 'غیر آئینی حکمرانی کا یہ طریقہ اور ایک یونٹ کی طرف بڑھنا ایک خطرناک رجحان ہے'۔

رضا ربانی کے آرٹیکل 172 (2) کے حوالے کا جواب دیتے ہوئے شہزاد وسیم نے واضح کیا اور کہا کہ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تمام ارضیات، معدنیات اور دوسری قیمتی اشیا جو پاکستان کے براعظمی کنار آب کے اندر یا پاکستان کے علاقائی سمندر کی حد پر سمندر کے نیچے ہوں، وفاقی حکومت کی ملکیت ہوں گے اور صوبائی حکومتوں کے نہیں جیسا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے دعویٰ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور گورنر سندھ نے پہلے ہی یقین دہانی کرائی ہے کہ صوبے کو اعتماد میں لیے بغیر کچھ نہیں کیا جائے گا۔

سیٹیزن پورٹل

وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ شکایت درج کروانے اور ان کے حل کے بنائی گئی وفاقی حکومت کی ایپلکیشن، پاکستان سٹیزن پورٹل پر لوگوں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ سیٹیزن پورٹل پر موصول ہونے والی 26 لاکھ شکایات میں سے 24 لاکھ حل ہوچکی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 5 لاکھ 91 ہزار شکایات کنندگان نے پورٹل پر اطمینان کیا ہے ساتھ ہی شہریوں سے اپیل کی کہ اپنی شکایات کے ازالے کے لیے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں