جسٹس عیسیٰ کیس: درخواست گزاروں نے نظرثانی اپیلوں میں ترمیم کیلئے وقت مانگ لیا

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں پر پہلی سماعت میں درخواست گزاروں نے ترمیم کے لیے وقت مانگ لیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزاروں کو مکمل سماعت کا موقع دینا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے جسٹس عیسیٰ کیس کے مختصر فیصلے پر دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: بارز نے نظرثانی درخواستوں کیلئے تشکل کردہ بینچ پر سوالات اٹھادیے

سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے مزید تیاری اور درخواستوں میں ترمیم کے لیے وقت مانگا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزاروں کو مکمل سماعت کا موقع بھی دینا چاہتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کو 16 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ملک کی 4 'بار ایسوسی ایشنز' نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو 10 رکنی فل کورٹ کی جانب سے سننے اور اس کا فیصلہ کرنے کے بعد مذکورہ کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت 7 رکنی سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے مقرر کرنے پر سوالات اٹھائے تھے۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ سماعتوں کو ملتوی کریں اور معاملے چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ لارجر بینچ تشکیل دیں جس میں وہ تمام ججز شامل ہوں جنہوں نے ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں پر فیصلہ دیا تھا۔

بار ایسوسی ایشنز نے کہا تھا کہ 19 جون کے مختصر حکم کے لیے تفصیلی وجوہات 22 اکتوبر کو جاری کی گئیں، لہٰذا پہلے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواستوں میں متعلقہ درخواست گزاروں سے مشاورت کے بعد مناسب ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جسٹس عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اس ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

تاہم عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 22 اکتوبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں