مائیں پیدائش سے قبل بچوں میں الرجیز کو منتقل کرسکتی ہیں، تحقیق

03 نومبر 2020
یہ بات سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ماں اپنی الرجیز اس وقت بچوں میں منتقل کرسکتی ہیں جب وہ مادر رحم میں نشوونما پارہے ہوتے ہیں۔

یہ بات سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔

ایجنسی فار سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ ریسرچ، کے کے ویمن اینڈ چلڈرنز ہاسپٹل اور ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں جانوروں کے ایک ماڈل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں ایک ایسی اینٹی باڈی کو دریافت کیا گیا جو الرجی ری ایکشنز کو متحرک کرنے کا باعث بنتی ہے۔

امیونوگلوبن ای (آئی جی ای) نامی اینٹی باڈی ماں کے پیٹ میں آنول کے ذریعے بچے تک پہنچتی ہے اور وہاں ایسے مدافعتی خلیات سے جڑ جااتی ہے، جن سے خارج ہونے والے کیمیکلز الرجک ری ایکشنز جیسے ناک بہنا اور دمہ کا باعث کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس عمل کے نتیجے میں پیدائش کے بعد نومولود چوہوں میں بالکل ویسا الرجی کا ری ایکشن بن گیا جو ان کی ماؤں میں تھا۔

تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ماں میں موجود اینٹی باڈی بچوں کے مدافعتی خلیات میں منتقل ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچوں میں ان مدافعتی خلیات کی ابتدائی قسم کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ حمل کے دوران یہ اینٹی باڈی آنول کی رکاوٹ کو عبور کرلیتا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بہت زیادہ الرجی کا شکار رہنے والی مائیں ان کو اپنے بچوں میں منتقل کرسکتی ہیں جو اس وقت بن جاتا ہے جب وہ پہلی بار اس الرجی سے متاثر ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الرجیز زندگی کے آغاز سے ہی شروع ہوجاتی ہیں، نومولود بچوں کو الرجی کے ردعمل کا تعلق ماؤں کے الرجی ردعمل سے اس طرح جڑا ہوتا ہے، جس کی وضاحت صرف جینیات سے ممکن نہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان کا کام اس پر زور دیتا ہے کہ الرجیز کا ردعمل ماں سے مادر رحم میں موجود بچے میں منتقل ہوسکتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ یہ الرجیز پیدائش کے برقرار رہ سکتی ہیں۔

تحقیق کے دوران چوہوں کو پولن سے متاثر کیا گیا جو حمل سے قبل ایک عام الرجی ہے۔

جن چوہوں میں پولن کے حوالے سے حساسیت قائم ہوئی وہ ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوگئی۔

تاہم محققین نے دریافت کیا کہ حساسیت یہ منتقلی وقت کے ساتھ کم ہونے لگی اور نومولود چوہوں میں الرجی کا ردعمل 4 ہفتوں تک تو تھی مگر 6 ہفتوں بعد بہت کم یا ختم ہوگئی۔

اس تحقیق سے الرجیز کی منتقلی کو محدود کرنے کے لیے نئی حکمت عملیاں مرتب کرنے میں موقع مل سکے گا۔

اس وقت دنیا بھر میں 10 سے 30 فیصد افراد کسی قسم کی الرجیز کا شکار ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے ۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ پیدائش کے بعد ایسے بچوں میں چنبل کا مسئلہ کیوں ہوتا ہے جن کی ماؤں کو اس کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں