• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 4:59pm Isha 6:27pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 4:59pm Isha 6:27pm

موٹروے زیادتی کیس: شریک ملزم شفقت عرف بگا کا اعتراف جرم

شائع November 4, 2020 اپ ڈیٹ November 17, 2020
ملزم شفقت کو پولیس نے 14 ستمبر کو گرفتار کیا تھا—فائل/فوٹو: رانا بلال
ملزم شفقت کو پولیس نے 14 ستمبر کو گرفتار کیا تھا—فائل/فوٹو: رانا بلال

لاہور-سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس میں گرفتار ملزم شفقت عرف بگا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کرلیا۔

تفتیشی افسر ذوالفقار چیمہ نے ملزم شفقت بگا کو سخت سیکیورٹی میں جوڈیشل مجسٹریٹ نزہت جبین کے سامنے پیش کیا جہاں ملزم نے 164 کا بیان قلم بند کر وایا۔

تفتیشی افسر انسپکٹر ذوالفقار نے ملزم شفقت کو عدالت میں پیش کیا اور ملزم کا ریکارڈ بھی سامنے رکھا۔

عدالت نے بند کمرے میں ملزم کا بیان لیا اور ملزم شفقت عرف بگا نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: ملزم شفقت 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم شفقت عرف بگا کا بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت دے دی تھی۔

ملزم شفقت کے خلاف تھانہ گجر پورہ میں اغوا، زیادتی، ڈکیتی اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کی رات ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ گاڑی کا فیول ختم ہونے پر موٹروے پر مدد کی منتظر تھیں کہ 2 مسلح افراد وہاں آئے اور مبینہ طور پر خاتون اور ان کے بچوں پر تشدد کیا اور قریبی کھیتوں میں لے جا کر خاتون کا ریپ کردیا۔

واقعے پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور حکام بالا نے واقعے کا سختی سے نوٹس لے کر کارروائی کی ہدایت کی۔

جس کے بعد ایک ملزم وقار الحسن نے پولیس کو اپنی گرفتاری پیش کی جبکہ دوسرے ملزم شفقت علی عرف بگا کو 14 ستمبر کو پولیس نے گرفتار کیا جس کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے تصدیق کی کہ ملزم کا ڈی این اے جائے وقوع سے اکٹھے کیے گئے نمونوں سے میچ کرگیا ہے۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔

گینگ ریپ کے واقعے کے ملزمان کی نشاندہی کے چند روز بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب انعام غنی نے کیس کی تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا 'عابد علی بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس کا رہائشی ہے، ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران عابد اور اس کی بیوی کھیتوں میں فرار ہوگئے، اس کی بچی ہمیں ملی ہے'۔

چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔

پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی۔

کارٹون

کارٹون : 3 دسمبر 2024
کارٹون : 2 دسمبر 2024