کورونا وائرس جسم کے اندر کیا تباہی مچاتا ہے؟

04 نومبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نوول کورونا وائرس جسم کے متعدد اعضا کو متاثر کرتا ہے مگر بنیادی طور پر کووڈ 19 کو پھیپھڑوں کی بیماری ہی تصور کیا جاتا ہے۔

کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے افراد کی جانچ پڑتال میں اس وائرس سے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

طبی جریدے دی لانسیٹ ای بائیومیڈیسین میں شائع تحقیق میں کورونا وائرس کی منفرد خصوصیات کو ثابت کیا گیا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کیوں ہوتا ہے، جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے۔

کووڈ 19 کے مختلف علامات جیسے بلڈ کلاٹنگ اور سونگھنے و چکھنے کی حس سے محرومی کا تجربہ لوگوں کو ہوتا ہے، اس بیماری کو شکست دینے والے کچھ مریضوں میں اس کے اثرات کئی ماہ بعد بھی برقرار رہتے ہیں، جس کے دوران تھکاوٹ اور سانس لینے میں مشکلات جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔

اس حوالے سے بھی تحقیقی کام محدود ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے اعضا پر بیماری سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

برطانیہ کے کنگز کالج لندن، ٹرائیسیٹ یونیورسٹی اور انٹرنیشنل سینٹر فار جینیٹک انجنیئرنگ اینڈ بائیولوجی کی مشترکہ تحقیق میں کووڈ 19 کے نتیجے میں فروری سے اپریل کے دوران ہلاک ہونے والے 41 مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔

محققین نے ان کے پھیپھڑے، دل، جگر اور گردوں کے نمونے حاصل کیے تاکہ وائرس کے رویے کا تجزیہ کیا جاسکے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ بیشتر کیسز میں پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور ان کے معمول کے افعال میں رکاوت ہوگئی تھی جبکہ نظام تنفس کے ٹشوز فائبروٹک میٹریل میں تبدیل ہوگئے تھے۔

لگ بھگ 90 فیصد مریضوں میں میں 2 اضافی خصوصیات بھی دیکھنے میں آئی جو کووڈ 19 کو دیگر اقسام کے نمونیا سے منفرد بناتی ہیں۔

ایک مریضوں کے پھیپھڑوں کی شریانوں اور رگوں میں بلڈ کلاٹنگ بہت زیادہ ہوتی ہے جبکہ دوسری چیز بڑے سنگل خلیات میں مختلف خلیات کا مل جانا ہے۔

خلیات کا یہ مجموعہ وائرل اسپائیک پروٹین کے باعث ہوتا ہے جس کو یہ وائرس خلیے میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

جب یہ پروٹین کورونا وائرس سے متاثر خلیات کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ پھیپھڑوں کے دیگر خلیات کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا عمل متحرک کرتا ہے، جس سے ورم اور بلڈکلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا گیا کہ نظام تنفس اور خون کی شریانوں میں موجود خلیات میں وائرل جینوم کی طویل عرصے تک موجودگی پھیپھڑوں کی ساخت میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے، جو کئی ہفتے یا مہینوں تک برقرار رہتی ہے اور اس سے لانگ کووڈ کی وضاحت ہوتی ہے۔

تحقیق میں پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا میں وائرل انفیکشن یا طویل ورم کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 ایسی بیماری نہیں جو وائرس سے متاثرہ خلیات کی موت سے ہوتا ہے بلکہ یہ پھیپھڑوں کے اندر ابنارمل خلیات کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔

اب یہ تحقیقی ٹیم ان خلیات اور ورم کے اثرات کی جانچ پڑتال کررہی ہے اور ایسی ادویات کو تلاش کررہی ہے جو وائرل اسپائیک پروٹین کو بلاک کرسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں