کووڈ 19 کو شکست دینا اس بیماری کا اختتام نہیں، تحقیق

14 نومبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد کے لیے صحتیاب ہونا مشکل ہوتا ہے مگر معمول کی زندگی کی واپسی بھی آسان نہیں ثابت ہوتی۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی، جس کے مطابق اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی طبی اور مالی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

مشی گن یونیورسٹی ہیلتھ سسٹم کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے 488 مریضوں کا جائزہ لیا گیا، جو مشی گن کے ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے کے بعد ڈسچارج ہوچکے تھے۔

16 مارچ سے یکم جولائی کے دوران ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والے ان افراد کا جائزہ 2 ماہ بعد لیا گیا۔

طبی جریدے جرنل اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق ایک تہائی افراد نے طبی مسائل جیسے کھانسی کے ساتھ نئے یا پہلے سے بدتر علامات اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے مسلسل محرومی کو رپورٹ کیا۔

لگ بھگ 50 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس بیماری کے باعث 'جذباتی طور پر متاثر' ہوئے جبکہ 28 فیصد نے ذہنی صحت کے مراکز کے لیے رجوع کیا۔

36 فیصد نے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے پر معمولی مالی مشکلاات کو رپورٹ کیا جبکہ 40 فیصد اپنی ملازمتوں سے فارغ یا اتنے کمزور ہوگئے کہ کام پر واپس نہیں جاسکے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس بیماری کو شکست دینے والے بیشتر افراد کے لیے معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کی صلاحیت جسمانی اور جذباتی علامات کے باعث کمزور ہوجاتی ہے جبکہ مالی نقصانات بھی عام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے تصدیق ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کا اثر ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق محدود تھی کیونکہ 16 سو میں سے صرف 488 ہی کو کور کیا جاسکا، کیونکہ 16 سو میں سے ایک تہائی مریض ہلاک ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو 'لانگ کووڈ' کا نام دیا گیا ہے۔

رواں ہفتے ہی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے نصف سے زیادہ صحتیاب مریضوں کو ابتدائی بیماری کے 10 ہفتوں بعد مسلسل یا ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع یہ تحقیق آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کے محققین نے کی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ کووڈ کے حوالے سے کافی کچھ سامنے آچکا ہے مگر طویل المعیاد اثرات کے بارے میں ابھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

تھکاوٹ کورونا وائرس کی چند عام علامات میں سے ایک ہے جس کا سامنا بیماری کے آغاز پر بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔

کووڈ کے طویل المعیاد اثرات پر ابھی بھی کافی کام ہورہا ہے اور اس تحقیق میں صحتیاب مریضوں میں تھکاوٹ کو ٹریک کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کووڈ 19 کی شدت، لیبارٹری کے اشاریے، ورم کے اشاریوں کی سطح اور پہلے سے بیماریوں کو دیکھا گیا۔

اس تحقیق میں 128 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19 کو شکست دے چکے تھے، جن میں 54 فیصد خواتین تھیں جبکہ اوسط عمر 49.5 سال تھی۔

کووڈ 19 کے دوران 55 فیصد سے زیادہ ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے جبکہ دیگر کا علاج ہسپتال سے باہر رہتے ہوئے ہوا تھا۔

تحقیق کے دوران ان افراد کا جائزہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 72 دن بعد کیا گیا تھا جبکہ گھر میں علاج کرانے والوں کے لیے بتدائئی تشخیص کے 14 دن کے بعد کے وقت کو پیمانہ بنایا گیا۔

تحقیق میں شامل 52 فیصد سے زائد نے تھکاوٹ کی شکایت کی جبکہ صرف 42 فیصد نے مکمل بحالی کو رپورٹ کیا۔

اہم بات یہ تھی کہ تھکاوٹ کے شکار رہنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت، ہسپتال میں داخلے یا دیگر کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

محققین کے مطابق اگرچہ یہ تحقیق محدود تھی مگر انہوں نے ماضی میں ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کی شکار رہنے والی خواتین میں کووڈ سے صحتیاب ہونے کے بعد بہت زیادہ تھکاوٹ کی شرح کو زیادہ دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کووڈ 19 کے بعد ہر وقت تھکاوٹ کا بیماری کی شدت سے تعلق ننہیں رکھتی، تو اس حوالے سے پیشگوئی کرنا آسان نہیں۔

ستمبر میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کتنے بڑے پیمانے پر دیرپا اثرات مرتب کررہا ہے۔

تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے اٹلی کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر بیرگامو کے 50 فیصد کے قریب افراد تاحال کووڈ سے مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی متعدد مسائل سامنا کررہے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کا حصہ بننے والی پوپ جان 13 کی وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر سیرینا وینٹوریلی نے بتایا 'لگ بھگ 50 فیصد مریضوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ صحتیاب ہوچکے ہیں تو ان کا جواب انکار میں تھا'۔

تحقیق میں ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو مارچ اور اپریل کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے، یعنی وائرس ان کے جسمانی نظام سے نکل چکا تھا۔

تحقیق کے دوران ابتدائی 750 افراد کا معائنہ کیا گیا اور 30 فیصد میں سانس کی مشکلات اور پھیپھڑوں پر خراشوں کو دریافت کیا گیا جبکہ دیگر 30 فیصد کو خون کے گاڑھا ہونے یا بلڈ کلاٹس اور ورم کے مسائل درپیش تھے۔

محققین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کئی ماہ بعد بھی متعدد اثرات دیکھنے میں آئے جن میں بالوں سے محرومی، بہت شدید تھکاوٹ، سنسناہٹ کا احساس، ڈپریشن، یادداشت سے محرومی اور ٹانگوں میں تکلیف شامل تھے۔

کچھ مریض جو وائرس سے متاثر ہونے سے پہلے کسی پر انحصار نہیں کرتے تھے، وہ اب بہت کمزور ہوچکے ہیں اور انہیں اپنے کاموں کے لیے رشتے داروں کی ضرورت پڑتی ہے یا وہیل چیئر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ اس وائرس کے چند اسرار میں سے ایک ہے کہ کچھ افراد کی صحتیابی کا عمل تو ہموار ہوتا ہے مگر کچھ کے لیے بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں