تحفظ کے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب گواہان غیر محفوظ

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2020
گواہ بیشتر فوجداری مقدمات میں ملزمان کے خلاف اپنے بیانات قلمبند کرنے میں عدم تحفظ محسوس کررہے ہیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی
گواہ بیشتر فوجداری مقدمات میں ملزمان کے خلاف اپنے بیانات قلمبند کرنے میں عدم تحفظ محسوس کررہے ہیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی

کراچی: ہائی پروفائل کیسز کے گواہان، ملزمان کے خلاف گواہی دینے کے لیے عدالتوں میں آزادانہ طور پر آنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ابھی تک حکومت سندھ نے گواہان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی طور پر وضع کردہ قانون پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی اور استغاثہ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ گواہ بیشتر فوجداری مقدمات میں ملزمان کے خلاف اپنے بیانات قلمبند کرنے میں عدم تحفظ محسوس کررہے ہیں، خاص طور پر ایسے مقدمات جو انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

صوبائی اسمبلی نے کرمنل کیسز میں گواہوں کو سرکاری تحفظ فراہم کرنے کے لیے گزشتہ سال ستمبر میں سندھ وٹنیس پروٹیکشن ایکٹ منظور کیا تھا، گواہی کے عمل کے دوران اگر کوئی تحفظ حاصل کرنے والا شخص ہلاک یا اس کی موت واقع ہوجائے تو قانونی لواحقین کو مناسب رہائش، مالی مدد اور معاوضہ وغیری فراہم کیا جانا ہے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس کے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف

تاہم گواہان کو ابھی تک تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکام نے ابھی تک قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں کیا ہے۔

جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے کیس کی سماعت اس کی مثال ہے کہ استغاثہ کے گواہ کیسے خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔

نقیب اللہ کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے کہا کہ 'تین گواہ موجود ہیں جو پولیس کے سامنے دیے گئے اپنے گزشتہ بیان سے پھر گئے تھے جب انہیں عدالت میں اپنی شہادتیں ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا، ہم نے مختلف مواقع پر جج سے درخواست کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی جائے کہ وہ پہلے سے چلائے گئے مقدمے میں استغاثہ کے گواہوں کو تحفظ فراہم کرے تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ گواہ اب بھی خوفزدہ ہیں کہ وہ ’انتہائی بااثر‘ ملزمان کے خلاف گواہی دینے کے لیے آزادانہ طور پر عدالت میں پیش ہوں۔

سینئر وکیل شوکت حیات نے استغاثہ کو مورد الزام ٹھہرایا کہ ان کی جان و مال کو تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے وہ گواہوں کی موجودگی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ 'گواہ تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے باقاعدگی سے اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتوں کے سامنے نہیں جا رہے ہیں'۔

عدالتی اور استغاثہ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چند ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں گواہوں کو بنیادی طور پر صرف ان صورتوں میں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے جن میں رینجرز استغاثہ کا کردار ادا کررہے تھے۔

ذرائع نے بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس کی مثال پیش کی جس میں رینجرز نے کراچی میں مقیم فیکٹری کے دبئی میں مقیم مالکان اور استغاثہ کے گواہوں کو تحفظ یقینی بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: ایک اور گواہ نے راؤ انوار کے خلاف اپنا بیان واپس لے لیا

شوکت حیات نے کہا کہ 'ہر کیس کی سماعت بلدیہ فیکٹری میں ہونے والے آتشزدگی کیس کی بنیاد پر کی جانی چاہیے جس میں استغاثہ نے گواہوں کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے اور جج نے فوری سماعت کی اور فیصلہ سنایا'۔

تاہم، بہت سے وکلا نے شکایت کی ہے کہ متعدد کیسز میں انہوں نے ججوں سے گواہوں کے تحفظ کا حکم دینے کی درخواست کی تاہم پولیس کے اعلی افسران نے جان بوجھ کر عدالتوں کے احکامات کو نظرانداز کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ گواہوں میں اعتماد کی کمی ہے کہ وہ عدالتوں میں مجرمان کے خلاف گواہی دینے کے لیے آگے آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گواہوں میں عدم تحفظ کا ایک گہرا احساس پایا جاتا ہے جو دہشت گردی کے اعلیٰ کیسز میں سخت مجرمان کے خلاف گواہی دینے میں تیزی سے گریز کررہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں