چین میں تیار ہونے والی ایک کورونا 19 ویکسین درمیانی مرحلے کے ٹرائلز میں بیماری کی روک تھام کے حوالے سے کامیاب رہی ہے۔

چین میں اس وقت کئی کورونا ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے جن میں سے کچھ کو ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے بعد لاکھوں شہریوں کو استعمال بھی کرائی جاچکی ہیں۔

اب سینویک بائیوٹیک کی کی ویکسین کے انسانی ٹرائل کے اولین 2 مراحل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں۔

نتائج کے مطابق 700 افراد پر ہونے والے ٹرائلز میں رضاکاروں کو ویکسین استعمال کرانے پر برق رفتار مدافعتی ردعمل حرکت میں آیا۔

چینی ویکسین کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب گزشتہ چند دن میں 3 ویکسینز کے آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے۔

امریکا، جرمنی اور روس میں تیاری کے مراحل سے گزرنے والی 3 ویکسینز میں انہیں بیماری سے تحفظ کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر قرار دیا گیا۔

چین میں اس وقت 4 ویکسینز انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں جن میں سے ایک سینویک کی ویکسین بھی ہے۔

طبی جریدے دی لانسیٹ میں اس ویکسین کورونا ویک کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے۔

نتائج کے مطابق یہ ٹرائل اپریل سے مئی کے دوران ہوئے تھے، جس میں شامل لوگوں میں کووڈ کے خلاف تیزفتار مدافعتی ردعمل حرکت میں آیا، تاہم نتائج میں ویکسین سے تحفظ کی شرح نہیں دی گئی۔

نتائج لکھنے والے ایک محقق زو فینگسائی نے بتایا کہ ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 144 جبکہ دوسرے مرحلے میں 600 افراد شامل تھے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ویکسین ایمرجنسی استعمال کے لیے موزوں ہے۔

ان افراد کی عمر 18 سے 59 سال کے درمیان تھی۔

پہلے مرحلے میں ویکسین لینے والے 96 میں سے 23 نے معتدل سائیڈ ایفکیٹس کو رپورٹ کیا، جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف، بس ایک فرد کو شدید ری ایکشن ہوا، مگر 3 دن میں علاج کے بعد ٹھیک ہوگیا۔

دوسرے مرحلے کے ٹرائل کے دوران رضاکاروں میں ویکسین انجیکشن کے بعد بہت تیزی سے اینٹی باڈیز بنی تھیں، مگر اینٹی باڈیز کی سطح اس بیماری کو شکست دینے والے مریضوں کے مقابلے میں کم تھی۔

اس ویکسین کے زیادہ بڑے پیمانے پر ہونے والے تیسرے مرحلے کا کوئی ڈیٹا ابھی تک جاری نہیں ہوا۔

چین میں تو اب کورونا وائرس کی وبا پر لگ بھگ مکمل قابو پایا جاچکا ہے، اسی چینی ویکسینز کے ٹرائل پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ہورہے ہیں۔

سینویک کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کا ٹرائل انڈونیشیا، برازیل اور ترکی میں جاری ہے۔

برازیل میں اس ویکسین کا ٹرائل گزشتہ ہفتے ایک رضاکار کی ہلاکت کے بعد کچھ دیر کے لیے روکا گیا مگر بعد میں دریافت ہوا کہ اس کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں۔

عام طور پر کسی ویکسین کے پہلے اورر دوسرے مراحل میں اس کے محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے جبکہ دیکھا جاتا ہے کہ تیسرے مرحلے میں کس حد تک موثر ہوسکتی ہے، یہی نتائج سینویک نے جاری کیے۔

چین کی یہ ویکسین فائزر/بائیو این ٹیک اور موڈرینا کی ویکسینز سے مختلف ہے جس کی تیاری کے لیے زیادہ روایتی طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے۔

اس ویکسین میں وائرس کا کیمیائی طور پر ناکارہ کیا جانے والا ورژن استعمال کیا گیا ہے۔

نتائج میں بتایا گیا کہ رضاکار کو ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کرانے کے 14 دن کے اندر وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بن گئیں۔

کمپنی کے مطابق یہ خاصیت اسے ایمرجنسی استعمال کے لیے موزوں بناتی ہے، بالخصوص کسی جگہ وبا پھیلنے یا طبی ورکرز کے لیے۔

ابھی تک کسی بھی ویکسین کے نتائج میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کا استعمال کتنے عرصے تک لوگوں کو بیماری سے تحفظ فراہم کرسکے گا۔

سینویک کے ایک ترجمان نے 18 نومبر کو واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کمپنی کی جانب سے فوری طور پر تیسرے مرحلے کی افادیت کی شرح کے ابتدائی نتائج جاری نہیں کیے جارہے ہیں، کیونکہ ابھی تک ٹرائل میں شامل رضاکاروں میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد زیادہ نہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج کے لیے ہمیں کیسز کی ایک مخصوص تعداد کا انتظار کرنا ہوگا، جس کے بعد ہی ڈیٹا کا تجزیہ ہوسکے گا، ابھی ہمارے پاس یہ ڈیٹا نہیں، تو اس کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔

اس کے مقابلے میں موڈرینا اور فائزر اپنے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج جلد جاری کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ امریکا میں اس وبا کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ 10 دن میں فائزر اور بائیو این ٹیک، روس اور موڈرینا کی ویکسینز کے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی جاری ہوئے، جن میں وہ بیماری سے بچانے کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر ثابت ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں