گلگت کے 'حلقہ دو' کے انتخابی نتیجے کے خلاف احتجاج، 4 گاڑیاں نذر آتش

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2020
گلگت میں صوبائی وزیر کی گاڑی کو بھی نذر آتش کیا گیا—فوٹو: امتیاز علی تاج
گلگت میں صوبائی وزیر کی گاڑی کو بھی نذر آتش کیا گیا—فوٹو: امتیاز علی تاج

گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو منعقدہ انتخابات میں گلگت کے حلقہ نمبر دو میں انتخابی نتیجے پر ہونے والا تنازع شدت اختیار کرگیا جہاں احتجاج کے دوران صوبائی وزیر کی گاڑی اور محکمہ جنگلات کے دفتر کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔

ایس ایس پی گلگت مرزا حسین کا کہنا تھا کہ گلگت میں فورسز سے مظاہرین کا تصادم ہوا اور نامعلوم افراد نے نگران وزیر کی گاڑی سمیت چار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے اور محکمہ جنگلات کی عمارت کو بھی آگ لگا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہنگامہ آرائی کے دوران کسی کے زخمی ہونے کے اطلاع نہیں ہے اور نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔

پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی سیکریٹری اطلاعات سعدیہ دانش نے کہا کہ ہمارے کارکن حلقہ دو کے نتائج کے بارے میں ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کے دباؤ پر نوٹیفکیش جاری کرنے کی تیاری کی اطلاع پر پرامن احتجاج کرنے نکلے تھے مگر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہوائی فائرنگ کے ساتھ ساتھ لاٹھی چارج کیا جس سے شہر کا امن تہہ و بالا ہو گیا اور اس کی ذمہ دار مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔

گلگت کے حلقہ دو میں احتجاج میں اس وقت شدت آئی جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو کامیاب قرار دینے کی اطلاعات ملیں جبکہ امیدواروں کی جانب سے جعلی بیلٹ پیپرز کے فرانزک کے بعد نتیجہ جاری کرنے کے لیے تحریری طور پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن فرانزک سے پہلے ہی نتیجہ جاری کیے جانے کی اطلاع پر پی پی پی کارکنان نے احتجاج شروع کردیا۔

ریٹرننگ افسر کے نتیجے کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کارکن چنار باغ کے قریب جمع ہوگئے اور احتجاج شروع کردیا جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور آ نسو گیس کا استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان کے حلقہ جی بی ایل اے 3 سے پی ٹی آئی اُمیدوار کامیاب

پولیس کی ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے استعمال کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور نامعلوم افراد نے محکمہ جنگلات کے دفتر، صوبائی وزیر کی گاڑی سمیت مزید تین گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت کی جانب سے پولیس کو الرٹ کر دیا گیا ہے جبکہ شہر کی سڑکیں بند ہو گئی ہیں۔

یاد رہے کہ گلگت کے حلقہ نمبر 2 میں ابتدائی طور پر پی پی پی امیدوار کو کامیاب قرار دیا گیا جس کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار کو 2 ووٹ کے فرق سے جیت قرار دیا گیا تھا اور اس پر تنازع کھڑا ہوا اور ایک تحریری معاہدے میں جعلی قرار دیے گئے بیلٹ پیپر کے فرانزک پر اتفاق کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی تیسری قانون ساز اسمبلی کی 24 جنرل نشستوں کے لیے 4 خواتین سمیت 330 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لیا تھا جس میں ایک نشست پر انتخاب ملتوی ہوا تھا۔

ابتدائی نتائج کے مطابق اس طرح 23 حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی جس کے بعد 7 آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 3 نشستوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) 2 جبکہ متحدہ وحدت المسلمین جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک نشست پر ایڈجسٹمنٹ کی تھی وہ ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات میں کامیاب ہونے والے 4 آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل

پی ٹی آئی کے کارکنان خطے میں اپنی اولین جیت کا جشن منا رہے ہیں تو دوسری جانب ملک کی 2 بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے انتخابات پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔

گلگت کے حلقہ نمبر 3 میں گزشتہ روز انتخاب ہوا جہاں پی ٹی آئی کے امیدوارسہیل عباس نے 5 ہزار 790 ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی جبکہ آزاد اُمیدوار ڈاکٹر محمد اقبال کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو 3 ہزار 211 ووٹ حاصل کرسکے۔

گلگت میں کارکنوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں، شیری رحمٰن

سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے گلگت میں کارکنوں پر مبینہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے کارکنان احتجاج کررہے تھے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے حملہ کیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دھاندلی زدہ انتخابات ان کے لیے ناکافی تھے اس لیے اب انہوں نے کشیدگی شروع کردی ہے’۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ‘پرامن کارکنوں پر شیلنگ اور فائرنگ ناقابل قبول ہے، اس طرح کے اقدامات وفاقی حکومت کی جانب سے حالات کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کیسے ممکن ہے کہ پی پی پی زیادہ ووٹ حاصل کرے لیکن پی ٹی آئی کو زیادہ نشتیں حاصل ہوں’۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ‘پی پی پی دھاندلی کے خلاف پرامن احتجاج کا حق رکھتی ہے، کیا حکومت بھول گئی ہے جس طرح انہوں نے پورے ملک کو 126 دن کے لیے یرغمال بنالیا تھا، افراتفری پھیلانے کے لیے گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور الزام ہم پر دھر رہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس سے لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جانب دار ہیں اور ووٹوں کا فرانزک آڈٹ نہیں کررہے ہیں، انہوں نے 4 حلقوں کے لیے پورے ملک کو بند کردیا تھا لیکن ہمارے مطالبے پر ایک حلقے کا فرانزک آڈٹ نہیں کررہے ہیں’۔

پی پی پی سینیٹر نے کہا کہ ‘وفاقی حکومت کے ایسے اقدامات انہیں بےنقاب کر رہے ہیں، اگر گلگت میں حالات خراب ہوئے تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم ہوں گے’۔

تبصرے (0) بند ہیں