چین نے ایغور مسلمانوں سے متعلق پوپ فرانسس کا بیان بے بنیاد قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2020
سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد نظر بند ہیں— فوٹو: بشکریہ آئی سی آئی جے
سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد افراد نظر بند ہیں— فوٹو: بشکریہ آئی سی آئی جے

چین نے صوبہ سنکیانگ میں شدید مشکلات کے شکار ایغور مسلمانوں کی حمایت میں مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی بیجنگ پر تنقید کو بے بنیاد قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ پوپ فرانسس کی جانب سے چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں سے متعلق بیان بے بنیاد ہے۔

مزید پڑھیں: چین، ایغور سے متعلق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، برطانیہ

پوپ فرانسس نے ایک نئی کتاب 'ہمیں خواب دیکھنے دیں: بہتر مستقبل کی راہ' میں کہا کہ 'میں اکثر ستائے ہوئے لوگوں روہنگیا، غریب ایغور اور یزیدی کے بارے میں سوچتا ہوں'۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پوپ فرانسس نے چین کے ایغوروں کو مظلوم عوام قرار دیا۔

اس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیمیں کئی برس سے سنکیانگ میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کرچکی ہیں۔

اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پوپ فرانسس کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے متعلق بیان کو مسترد کردیا۔

انہوں نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ 'چینی حکومت نے ہمیشہ نسلی اقلیتوں کے قانونی حقوق کا یکساں طور پر تحفظ کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں ہر نسل کے لوگوں کو بنیادی اور ترقیاتی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پوپ فرانسس کے تبصرے بے بنیاد ہیں'۔

مزید پڑھیں: ایغور مسلمانوں کا معاملہ، امریکا نے چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

پوپ پہلے میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش اور دیگر سرحدی علاقوں میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں اور عراق میں داعش کے ہاتھوں یزیدیوں کے قتل کے بارے میں بات کرچکے ہیں، تاہم یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے چین کے ایغور مسلمانوں کا ذکر کیا۔

رواں برس جولائی میں برطانیہ نے کہا تھا کہ چین مغربی خطے سنکیانگ میں شدید مشکلات کے شکار ایغور مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی خطے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور ظلم پر عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق اور ماہرین کے اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد ایغور اور ترک مسلمان نظر بندی کیمپوں میں موجود ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا نے رواں ماہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چین کینگو سمیت متعدد چینی حکام کے ویزا پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اثاثے بھی منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سنکیانگ کے معاملے پر تنقید، چین نے امریکی قانون دانوں پر پابندیاں عائد کردیں

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکا مغربی خطے میں جبری مشقت، اجتماعی نظر بندی اور غیر رضاکارانہ بنیادوں پر آبادی پر قابو پانے جیسے ہتھکنڈوں سمیت تمام خوفناک اور منظم زیادتیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

چین نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا لیکن ایغور مسلمانوں کو ووکیشل ایجوکیشنل سینٹرز بھیجنے کا اعتراف کیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں مینڈیرن زبان اور کوئی ہنر سکھانا ہے، تاکہ خطے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد جنم لینے والی علیحدگی پسندی کی لہر سے انہیں دور کیا جا سکے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے کہا تھا کہ مجھے یہ بتانا ہوگا کہ سنکیانگ کا معاملہ خالصتاً چین کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں امریکا کا مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں