فلائی دبئی کی اسرائیل کے لیے باقاعدہ کمرشل پروازیں شروع

اپ ڈیٹ 27 نومبر 2020
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے ستمبر میں تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدہ کیا تھا— فوٹو: اے ایف پی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے ستمبر میں تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدہ کیا تھا— فوٹو: اے ایف پی

فلائی دبئی نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم ہونے کے بعد پروازوں کا سلسلہ باقاعدہ شروع کر دیا اور پہلی پرواز دبئی سے تل ابیب اور وہاں سے واپس دبئی آگئی۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق فلائی دبئی کی پہلی پرواز دبئی سے تل ابیب پہنچی تو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی وہاں موجود تھے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاق

بینجمن نیتن یاہو نے دبئی سے 4 گھنٹوں بعد تل ابیب پہنچنے والی فلائی دبئی کی پہلی پرواز کے بارے میں کہا کہ ‘یہ ایک تاریخی لمحہ ہے’۔

انہوں نے مسافروں سے کہا کہ ‘السلام علیکم، آپ بار بار یہاں آئیں’۔

فلائی دبئی کی پرواز بعد ازاں تل ابیب سے براہ راست پہلی مرتبہ دبئی پہنچ گئی، یہ پرواز دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال ہونے کے بعد پہلی شیڈولڈ کمرشل پرواز تھی۔

دبئی میں موجود امیگریشن کے ایک افسر نے اسرائیل سے آنے والے مسافروں کو ‘دبئی میں خوش آمدید کہا’، مسافر دبئی شہر میں داخل ہوئے اور ان میں بعض ہاتھ ہلا کر امن کا نشان بنا رہے تھے۔

متحدہ عرب امارات کے امیر شیخ خلیفہ بن زاید النیہان نے ٹوئٹر پر اپنے تازہ بیان میں اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ‘اس سے مشرق وسطیٰ میں امن اور ترقی تیز ہوگی’۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کو تعلقات کے بعد کورونا سے متاثر ہونے والی معیشت میں بہتری کی توقعات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سیاحوں کا بھی تبادلہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

فلائی دبئی کے چیف ایگزیکٹو غیث الغیث نے پروازوں کے آغاز کے اعلان کے وقت اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘شیڈولڈ پروازوں کے آغاز سے معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کے لیے مزید مواقع پیدا ہوں گے’۔

رپورٹ کے مطابق فلائی دبئی کی اسرائیل کے لیے ہفتے میں دو پروازیں ہوں گی جبکہ اگلے ہفتے سے اسرائیل کی ایئرلائنز کی کمرشل پروازیں بھی متوقع ہیں۔

ابوظہبی کی ایئرلائن 'اتحاد ایئرویز' نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارچ 2021 سے تل ابیب کے لیے پروازیں شروع کرے گی۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے جبکہ حکومتی سطح پر بینکنگ، کاروباری معاہدوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طویل مدت سے جاری بائیکاٹ کو ختم کریں گے۔

بعدازاں قریبی ملک بحرین نے بھی 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یو اے ای کے ساتھ مل کر معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین وہ تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ مصر اور اردن بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔

ایک اسرائیلی وفد گزشتہ روز معاہدے کو باضابطہ شکل دینے کے لیے بحرین روانہ ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا

خیال رہے کہ نام نہاد 'ابراہام معاہدہ'، جو اب اسرائیل اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان طویل عرصے سے خفیہ تعلقات کو سامنے لے آیا ہے جس کی بنیاد حالیہ سالوں میں خطے میں موجود مشترکہ حریف ایران کے حوالے سے تشویش پر رکھی گئی تھی۔

امریکا کے توسط سے ہونے والے ان معاہدوں پر فلسطینی غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں، جن کے رہنما ان معاہدوں کو عرب کے دیرینہ مؤقف کے برخلاف قرار دیتے ہیں اور جن کے مطابق اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک فلسطینی اپنی ایک آزاد ریاست حاصل نہ کر لیں۔

بعد ازاں 20 اکتوبر کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاق کرلیا تھا۔

اس پیش رفت کے بعد اب اماراتی، عرب دنیا میں پہلے شہری ہوں گے جنہیں اسرائیل میں داخل ہونے کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

دونوں ریاستوں نے 4 معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ایک 'شہریوں کو ویزا سے استثنیٰ دینے' سے متعلق ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت سے اسرائیلی اور اماراتی معیشتوں کو فائدہ پہنچے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں