کوئٹہ ڈی ایچ اے ایکٹ کی کچھ شقیں غیرآئینی قرار

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2020
بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے ایکٹ کی کچھ شقوں کو آئین سے متصام قرار دے دیا— فوٹو بشکریہ بلوچستان ہائی کورٹ
بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے ایکٹ کی کچھ شقوں کو آئین سے متصام قرار دے دیا— فوٹو بشکریہ بلوچستان ہائی کورٹ

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) ایکٹ کی بعض شقوں کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی اور جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس ہاشم خان کاکڑ، جسٹس عبدالحمید بلوچ اور جسٹس عبد اللہ بلوچ پر مشتمل بلوچستان ہائی کورٹ بینچ نے ڈی ایچ اے ایکٹ 2015 کو چیلنج کرنے والے وکیل کاشف کاکڑ کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی سمیت 20 شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ

چیف جسٹس نے دونوں طرف سے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کوئٹہ ڈی ایچ اے ایکٹ 2015 کی شقیں کیو ٹو (2-q)، شق 6b، شق 1-14 اور 14b کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شقیں آئین پاکستان سے متصادم ہیں۔

بینچ نے کوئٹہ ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ کو کچھ مخصوص علاقہ بنانے کے لیے دی جانے والی اجازت کو بھی کالعدم قرار دیا۔

عدالت نے کوئٹہ ڈی ایچ اے کی اراضی کے حصول کے لیے دی گئی اجازت کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے مفاد میں اراضی حاصل کرسکتی ہیں اور اس وقت کی حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ کسی بھی سرکاری یا نجی ادارے کو زمین کے حصول کے اختیارات فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

عدالت نے کہا کہ سرکاری ادارے کو اجازت دینے کے بجائے غیر سرکاری ادارے کو زمین کے حصول کے لیے ترجیح دی گئی، فیصلے میں کہا گیا کہ مجلس قانون ساز کے پاس قانون بنانے یا اس میں ترمیم کا حق ہے لیکن اسے آئین کی شقوں سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ جس طرح سے ڈی ایچ اے ایکٹ کے لیے قانون سازی کی گئی اس سے اس وقت کی حکومت اور اسمبلی کے ممبران کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں