کورونا وائرس دنیا کے اس آخری براعظم تک بھی پہنچ گیا ہے، جو اب تک اس وبائی مرض سے محفوظ تھا۔

براعظم انٹار کٹیکا میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا مگر اب وہاں لاطینی امریکی ملک چلی کے تحقیقی مرکز میں اولین کووڈ کیسز سامنے آئے ہیں۔

چلی ریسرچ بیس میں چلی کی فوج کے 26 افراد اور دیگر عملے کے 10 افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔

جنرل برنارڈو او ہیگینس ریکیولم ریسرچ بیس میں ان کیسز کی رپورٹ 21 دسمبر کو سامنے آئی۔

چلی کی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا 'بروقت احتیاطی کارروائی سے ان افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی'۔

رپورٹ کے مطابق تحقیقی مرکز کو معاونت فراہم کرنے والے ایک بحری جہاز کے عملے کے 3 افراد میں بھی انٹار کٹیکا کے مشن سے واپسی پر کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

انٹار کٹیکا میں جن 36 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، انہیں چلی کے شہر پونتا آریناس منتقلل کیا جاچکا ہے، جہاں وہ آئسولیشن میں ہیں اور ان کی حالت مستحکم ہے۔

چلی کی انٹار کٹیکا میں 13 تحقیقی مراکز ہیں۔

انٹار کٹیکا کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام اہم تحقیقی منصوبوں کو روکا جاچکا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے سائنسدانوں کا کام متاثر ہوا ہے۔

ویسے تو انٹار کٹیکا میں کوئی مستقل آبادی نہیں مگر وہاں ایک ہزار محققین اور دیگر افراد موسم سرما کے دوران مقیم ہیں۔

رواں سال مارچ میں جب دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہورہا تھا تاکہ کووڈ 19 کی روک تھام کی جاسکے، تو اس وقت انٹارٹک پروگرام نے اتفاق کیا تھا کہ یہ وبا اس براعظم میں تباہ کن ہوسکتی ہے۔

جہاں کا سرد موسم اور تند و تیز ہوائیں وہاں موجود تحقیقی مراکز میں کام کرنے والے افراد کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔

کونسل آف منیجر آف نیشنل انٹارٹک پروگرام کی ایک دستاویز کے مطابق بہت زیادہ متعدی نوول وائرس انٹار کٹیکا کے سخت ماحول میں زیادہ جان لیوا اور تیزی سے پھیل سکتا ہے، جہاں طبی سہولیات محدود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں