کراچی: وکیل قتل کیس میں کالعدم تنظیم کے 2 کارکنوں کو سزائے موت

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2020
استغاثہ کے مطابق وکیل حیدر شاہ کو یونیورسٹی روڈ پر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا —فائل/فوٹو: اے ایف پی
استغاثہ کے مطابق وکیل حیدر شاہ کو یونیورسٹی روڈ پر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا —فائل/فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم تنظیم سپا صحابہ کے 2 کارکنوں کو فرقہ ورانہ بنیاد پر وکیل سید امیر حیدر شاہ کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنا دی۔

عدالت نے اسحٰق عرف بوبی اور محمد عاصم عرف کیپری کو سندھ ہائی کورٹ کے وکیل سید امیر حیدر شاہ کو 2015 میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل کا مجرم قرار دیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کالعدم تنظیم کے 2 دہشت گرد گرفتار

جج نے کراچی سینٹرل جیل کے جوڈیشل کمپلیکس میں ٹرائل مکمل کیا اور دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

جج نے دونوں مجرمان کو سارھے 10 سال کی اجتماعی قید کی سزا اور فی کس 2 لاکھ 60 ہزار جرمانہ بھی عائد کیا۔

تاہم دونوں ملزمان کی سزا سندھ ہائی کورٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔

استغاثہ کے مطابق وکیل حیدر شاہ 28 اگست 2018 کو گلستان جوہر میں واقع اپنے گھر سے ایک مقدمے کے سلسلے میں پی ای سی ایچ ایس میں اپنے دفتر جارہے تھے اور جیسے ہی حسن اسکوائر میں یونیورسٹی روڈ پر پہنچےتو تین مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔

انہوں نے بتایا کہ ایڈووکیٹ حیدر شاہ کو 5 گولیاں لگی تھیں اور انہیں قریبی المصطفیٰ ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔

تفتیشی افسر انسپکٹر ذوالفقار علی باجوہ نے ابتدائی طور پر جمع کردہ رپورٹ میں مقدمے کو 'اے' کلاس قرار دیتے ہوئے بند کرنے کی سفارش کی تھی کیونکہ پولیس کو ملزمان کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی: تخریب کاری کی منصوبہ بندی کرنے والے '4 دہشت گرد' گرفتار

بعد ازاں اسحٰق عرف بوبی اور محمد عاصم عرف کیپری کو ایک اور کیس میں ملوث ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا اور دوران تفتیش انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ وکیل کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔

تفتیشی افسر نے انکشافات کی بنیاد پر سی آر پی سی کے سیکشن 512 کے تحت تفتیشی رپورٹ جمع کرادی اور موجودہ مقدمے میں دونوں کو نامزد کردیا۔

ٹرائل کے دوران دونوں ملزمان کے بیانات سی پی آر سی کے سیکشن 342 کے تحت ریکارڈ کیے گئے جبکہ انہوں نے استغاثہ کے الزامات سے انکار کیا اور کہا کہ وہ معصوم ہیں اور اس مقدمے میں گھسیٹا جا رہا ہے۔

ملزم عاصم نے بیان حلفی میں کہا کہ انہیں پہلے ہی شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے عہدیداروں نے اٹھا لیا تھا اور حراست میں رکھا ہوا تھا اور ان کی اہلیہ نے اس حوالے سے درخواستیں بھی دی تھیں۔

وکیل صفائی منور علی تالپور، غلام رسول سوہو اور محمد خان نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل معصوم ہیں اور واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) مقتول کے کلرک نے دو دن بعد درج کروائی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی تاکہ ملزمان کے خلاف کیس تیار کیا جائے اور انہیں جعلی اور جھوٹے مقدمے میں پھنسایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سی ٹی ڈی کا 5 دہشت گرد گرفتار کرنے کا دعویٰ

دوسری جانب استغاثہ نے عینی شاہد سمیت 12 گواہوں کو بیانات قلم بند کروانے کے لیے عدالت کے سامنے پیش کیا۔

سرکاری وکیل احمد رضا اور غلام مرتضیٰ میتلو نے دلائل دیے کہ ملزمان کے خلاف سزا کے لیے کافی ثبوت دستیاب ہیں اور ان کا ایک کریمنل ریکارڈ ہے اور ملزم اسحٰق ایک اور وکیل سید وقار شاہ کے فرقہ ورانہ قتل میں بھی سزا یافتہ ہے۔

انہوں نے عدالت سے ملزم کو قانون کے مطابق سخت سزا دینے کی درخواست کی۔

تبصرے (0) بند ہیں