اندراج مقدمہ کی درخواست: محمود اچکزئی کو طلب کرلیا گیا

24 دسمبر 2020
جج نے کہا کہ سابقہ فیصلے موجود ہیں جن کی روشنی میں الزام علیہ کو سننا لازمی ہوتا ہے — فائل فوٹو
جج نے کہا کہ سابقہ فیصلے موجود ہیں جن کی روشنی میں الزام علیہ کو سننا لازمی ہوتا ہے — فائل فوٹو

لاہور کے شہریوں کے خلاف متنازع بیان دینے پر محمود خان اچکزئی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر عدالت نے انہیں جمعرات کو طلب کرلیا۔

ایڈیشنل سیشن جج رضوان عزیز نے کیس پر محمود خان اچکزئی کے خلاف اندارج مقدمہ کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے محمود خان اچکزئی کو 24 دسمبر کو طلب کر لیا اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو الزام علیہ کی حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ایس پی ہیڈ کوارٹرز سے بھی 24 دسمبر کو تمام تفصیلات طلب کر لیں۔

جج نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے کچھ سابقہ فیصلے موجود ہیں جن کی روشنی میں الزام علیہ کو سننا لازمی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: متنازع بیان: محمود اچکزئی کےخلاف مقدمے کی درخواست پر پولیس سے رپورٹ طلب

واضح رہے کہ درخواست گزار تنویر ارشد نے سابق کوآرڈینیٹر پاکستان بار کونسل محمد مدثر چوہدری ایڈووکیٹ کی وساطت سے درخواست دائر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 13 دسمبر کے جلسے میں پنجابیوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی۔

عدالت نے 15 دسمبر کو ابتدائی سماعت کرتے ہوئے تھانہ لاری اڈا کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سے رپورٹ طلب کر لی تھی۔

یاد رہے کہ 13 دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کے دوران محمود خان اچکزئی نے متنازع بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں کسی کو کچھ کہنے نہیں آیا، ہم نے اپنی بساط کے مطابق سامراج کا مقابلہ کیا لیکن ہمیں گلہ ہے کہ ہندو، سکھ اور دوسرے رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا، آپ سب نے مل کر افغان وطن پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا، بس اتنا کافی ہے۔'

اپنی بات کا پس منظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'جہاں جہاں کلمہ حق کہا جاتا تھا وہ سارے علاقے یا اٹلی یا انگریز یا فرانسیسیوں کے قبضے میں چلے گئے، واحد وطن جس نے ان سمراجیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا وہ دریائے آمو سے لے کر اباسین تک افغان پشتون وطن تھا۔'

محمود خان اچکزئی کے اس بیان پر سیاسی رہنماؤں اور مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی، تاہم پی ڈی ایم رہنماؤں کی طرف سے ان کے بیان کی تاحال مذمت نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ کو محمود اچکزئی کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کرنی چاہیے، فواد چوہدری

اگلے روز پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 'محمود اچکزئی جو ہر جگہ جاکر متنازع باتیں کرتے ہیں اور خود کو افغان بچہ کہتے ہیں، یہ عبدالصمد اچکزئی کے بیٹے ہیں جو کانگریس کے صدر تھے اور کانگریس پاکستان بننے کے خلاف تھی'۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 'یہ لوگ نسل در نسل پاکستان کے مخالف ہیں، یہ صرف پنجاب کے مخالف نہیں، یہ پاکستان اور وفاق کے مخالف ہیں، انہوں نے اپنا کردار بیرونی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر رکھا ہے، اس سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں ہے'۔

ایک سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ 'میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جس طرح محسن داوڑ کی بلوچستان میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے، وزیراعلیٰ کو اچکزئی کی پنجاب میں پابندی عائد کردینی چاہیے، کسی جگہ کسی نے بدتمیزی کردی تو مسئلہ ہوگا، بہتر ہے اس پر قانونی اقدام ہو'۔

وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے ردعمل میں کہا تھا کہ 'جلسے میں محمود اچکزئی نے جو زبان استعمال کی اس پر پی ڈی ایم کو شرم آنی چاہیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں