گیس کی قلت سے برآمدات رک سکتی ہیں، صنعتکاروں کا انتباہ

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2020
صنعتکار ایک سنجیدہ مسئلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان غیر ضروری اختلاف سے الجھن کا شکار ہی،کاروباری برادری— فائل فوٹو:رائٹرز
صنعتکار ایک سنجیدہ مسئلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان غیر ضروری اختلاف سے الجھن کا شکار ہی،کاروباری برادری— فائل فوٹو:رائٹرز

کراچی: صنعت کاروں نے وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا ہے کہ تاجر برادری کو بلا تعطل گیس کی فراہمی کے وعدہ کو من و عن پورا کرنے کو یقینی بنائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) زبیر موتی والا اور صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) ایم شارق وہرا نے مشترکہ بیان میں کہا کہ جنوری میں گیس کی قلت کی افواہیں حکومت کے وعدے کے منافی ہیں۔

تاجر برادری نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کی جانب سے ایک نیوز کانفرنس میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے سندھ حکومت پر صوبے میں تقریباً 2 ہزار 500 سے 2 ہزار 600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداوار کے گمراہ کن اعداد و شمار دینے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ جون کے اعداد و شمار کے مطابق اس صوبے میں 2 ہزار 25 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیدا کی گئی تھی-

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کو خط، صوبے میں گیس کی قلت پر شکایت

کاروباری برادری کے نمائندوں نے بتایا کہ صنعتکار ایک سنجیدہ مسئلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان غیر ضروری اختلاف سے الجھن کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے کہ سندھ سے نکلنے والی گیس میں سے جو مقدار صنعتوں کو فراہم کی جانی تھی وہ کراچی کی صنعتوں کو فراہم نہیں کی جارہی۔

زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ 'ہم نے طویل بحث و مباحثے کے بعد وزارت توانائی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں ہم نے آر ایل این جی اور مقامی گیس کے فرق کے طور پر گیس کے نرخوں کو 786 روپے سے بڑھا کر 930 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے پر اتفاق کیا تاہم ہم نے یہ معاہدہ اس وقت کیا جب حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ صنعتوں کو گیس مناسب پریشر پر فراہم کی جائے گی اور تعطل نہیں ہوگا'۔

چیئرمین بی ایم جی نے کہا کہ 'اب اعلان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بجلی گھروں کو گیس کی فراہمی معطل کردی ہے جسے صنعت کار سمجھنے میں ناکام ہیں کیونکہ زیرو ریٹڈ سیکٹر، عام صنعت یا ٹیکسٹائل کے شعبے کے مقابلے میں سارا فرق ادا کرنے پر راضی تھے، اس سب کے باوجود صنعتیں فعال نہیں ہیں، گزشتہ 15 دنوں سے جب حکومت نے دعوٰی کیا تھا کہ وہ آر ایل این جی کی 200 ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ گیس فراہم کررہی ہے، (گیس) کی قلت برقرار ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم مشیر پیٹرولیم کے اس اعلان پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کے تحت جنوری 2021 سے کراچی میں آر ایل این جی کی شمولیت 200 ایم ایم سی ایف ڈی کے بجائے 50 ایم ایم سی ایف ڈی ہوگی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی فرٹیلائزر تبدیل ہونے جارہی ہے جس سے 60 ایم ایم سی ایف ڈی کی بچت ہوگی اور کے الیکٹرک کے لیے بھی 70 ایم ایم سی ایف ڈی کم ہوجائے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کی قلت، پریشر میں کمی سے توانائی کے شعبے کو فراہمی متاثر

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ہموار پیداوار کے لیے قیمت ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ پیداوار میں کمی اور بے روزگاری کے نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا، ایسی صورتحال پیدا کرنے کا ذمہ دار کون ہوگا جس میں ہم خریداروں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں'۔

شارق وہرا کا کہنا تھا کہ زیرو ریٹیڈ سیکٹر نرخوں کو 786 روپے سے 930 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک اضافے پر سوال اٹھا رہا ہے کیونکہ صنعتوں کو گیس نہیں مل رہی۔

کے سی سی آئی کے سربراہ نے سوال کیا کہ اگر اس معاہدے کی حکومت پاسداری نہیں کر رہی تو کیا یہ ضروری ہے کہ صنعت کار بھی اس کی پاسداری کرتے رہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ 'صنعتکاروں کو وقت کے لحاظ سے معاوضہ دیا جانا چاہیے جو گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضائع ہوا اور ان دنوں جب گیس دستیاب نہیں تھی، انہیں اس کے حساب سے معاوضہ دیا جانا چاہیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں