حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2021
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی رقم واپس مانگ لی ہے
—فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی رقم واپس مانگ لی ہے —فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔

لاہور میں مسلم لیگ فنکشنل (پی ایم ایل-ف) کے سیکریٹری جنرل محمد علی درانی نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: نااہل حکمران نے اپنی نااہلی کا خود اعتراف کرلیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو زمین بوس کردیا ہے اور کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے دوطرفہ بات چیت اسی صورت میں ہوتی ہے جب معیشت بحال ہو۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے واضح کردیا ہے جو فیصلہ حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا ہوگا وہ سب کا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کی تجاویز سامنے آنے پر کوئی بات ہوگی۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اے پی سی کے اعلامیہ کو اسٹریٹجی کی شکل دینا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فرد کی رائے کو نہیں دیکھا جاتا جبکہ عوام پارٹی کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم میں اختلاف کی باتوں کو افواہ قرار دیا اور کہا کہ میڈیا کی دنیا میں چھوٹی موٹی خبریں اڑتی رہتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی کی صوبائی سول سروس میں شمولیت پر تحقیقات کا آغاز

ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے گزشتہ 2 برس میں ایک پیسے کی مدد نہیں کی بلکہ مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ یہاں کی معاشی پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین نے مدد نہیں کی بلکہ تاریخی شرح سود 14 فیصد پر قرض دیا ہے جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی رقم واپس مانگ لی ہے اور کوئی بھی پڑوسی ملک آپ سے تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی سمیت سول اداروں پر زور دیا کہ وہ نااہل حکومت کا ایک دن بھی ساتھ نہ دیں جو ہر روز ملک کو بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔

نیب میں طلبی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'نیب کی جرات نہیں ہے، آپ اطمینان رکھیں، ایسی کچی گولیاں ہم نے بھی نہیں کھلیں'۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان مستعفیٰ ہونے اور الیکشن کا اعلان کریں، جس کے بعد مذاکرات کی تجویز پر غور کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کیلئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنا چاہتے، شیخ رشید

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سیکریٹری جنرل محمد علی درانی نے کہا کہ پیر پگارا نے یہ ذمہ داری مجھے دی تھی اور میں مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر بہت پرامید ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ قومی سوچ عوام کی طرف مرکوز ہے، اب ہم آگے بڑھنے کے لیے جستجو کر رہے ہیں۔

محمد علی درانی نے مولانا فضل الرحمٰن سے اپنی ملاقات کا مقصد بتایا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن کے لیے پیر پگارا کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ ٹکراؤ سے بچانے کے لیے نئے راستے اور تدابیر سوچنی چاہئیں اور استعفے سمیت دیگر امور پر ٹریک ٹو مذاکرات کا موقف رکھا'۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آج کی ملاقات بہت مفید رہی اور آگے بڑھنے کے راستے نکلیں گے اور آئندہ سال اتحاد و اتفاق کا سال ہوگا۔

رہنما فنکشنل لیگ نے کہا کہ مستقبل کے راستے مذاکرات سے ہی نکلیں گے اور گرینڈ ڈائیلاگ شروع کرنے سے پہلے ایجنڈا سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب کی وجہ سے بعض مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ احتساب حکومت کا نہیں بلکہ عدالت کا کام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد علی درانی نے کہا کہ یہ مذاکرات ریاست کی سطح پر ہونے چاہیے اور زندگی کے ہر شبعے سے تعلق رکھنے والے چاہتے ہیں کہ راستہ نکلے اور مشکلات کم ہوسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں