حکومت امریکی کمپنی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2021
حکومت نے امریکی فرم کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کردی— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
حکومت نے امریکی فرم کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کردی— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے واشنگٹن میں قائم اثاثے بازیافت کرنے کی فرم براڈشیٹ ایل ایل سی کو 2کروڑ 87 لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کی منظوری دے دی ہے اور اسی کے ساتھ ہی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس منسلک کرنے کے برطانوی عدالت کے فیصلے کو بھی چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کی منظوری اس وقت دی گئی جب اٹارنی جنرل کے دفتر اور وزارت قانون نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو 2کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی رقم کلیئر کرنے دے۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک لیز کیس: پاکستان پر عائد 6 ارب ڈالر جرمانے پر حکم امتناع

حکومت نے اس تباہ کن فیصلے کے ذمے داران اور کمپنی سے معاملات میں ملوث افراد کے تعین کا فیصلہ بھی کیا ہے جنہوں نے 2000 میں پرویز مشرف کے دور میں ایک متنازع معاہدے پر دستخط کیے اور اور اس فرم کے “نام نہاد فرنٹ مین” کو 50لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے ڈان کو بتایا وفاقی کابینہ نے امریکا میں قائم اثاثے بازیافت کرانے والی فرم کو ہرجانے کی ادائیگی کے لیے منظوری دے دی ہے، حکومت اس معاملے میں ذمے داران کا تعین بھی کرے گی جنہوں نے مبہم شرائط پر کمپنی کے ساتھ کام کیا اور پہلے ہی فرم کے ‘نام نہاد نمائندے’ کو ہرجانے کی رقم ادا کردی ہے۔

مشیر نے کہا کہ نیب اس وقت دبئی میں موجود طارق ملک کے خلاف تحقیقات کررہا ہے جنہوں نے نام نہاد فرنٹ مین کو ہرجانے کی رقم ادا کی۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فرم کے ساتھ معاہدہ 2013 میں ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس معاملے کی ٹھیک طرح سے پیروی نہیں کی جس کے نتیجے میں پاکستان کو امریکی فرم کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک منصوبہ: پاکستان 5 ارب 97 کروڑ ڈالر کی قانونی چارہ جوئی پر مذاکرات میں مصروف

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور براڈشیٹ کے مابین ثالثی کا آغاز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ہوا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے معاملات طے کر لیے تھے لیکن یہ رقم اس شخص کو دی گئی تھی جو فرم کے مطابق اس کا نمائندہ نہیں تھا۔

دریں اثنا نیب کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ بیورو نے اس نقصان اور خفت کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ نیب، دیگر سرکاری محکموں اور برطانیہ میں پاکستان ہائی کمیشن کے کچھ عہدیداروں سے تحقیقات کی جائیں گی، انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال بیورو کے اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس بھی منعقد کر رہے ہیں تاکہ اس تمام معاملے میں ملوث ذمے داران کا تعین کیا جا سکے۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اے جی آفس اور وزارت قانون دونوں نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس معاملے کے حقائق سے قطع نظر برطانیہ کی ہائی کورٹ نے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے کھاتوں سے 2کروڑ 87لاکھ ادائیگی کا جو فیصلہ دیا ہے، نیب کے ذریعے فرم کو دی جانے والی اس سزا کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ یہ یقینی بنانا چاہیے کہ پاکستان کو دی جانے والی خودمختاری کو استثنیٰ حاصل ہو اور غیر ملکی عدالتوں کے ذریعہ اس کے ہائی کمیشن کے کھاتوں کا احترام کیا جائے اور موجودہ مقدمہ ہمارے خلاف استعمال ہونے کی مثال نہیں بننا چاہیے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے 45 قدیم نوادرات و مجسے پاکستان کے حوالے کردیے

انہوں نے کہا کہ یہ نیب کی طرف سے معاملات سے غلط انداز میں نمٹنے کی افسوسناک کہانی ہے اور اس لیے انہیں اس داستان کے لیے پاکستانی عوام کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ سود کی عدم ادائیگی کی وجہ سے 2کروڑ 20لاکھ ڈالر کی رقم 2کروڑ 87لاکھ ڈالر میں تبدیل ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر 4ہزار 758 ڈالر فی دن کے حساب سے ہرجانے کی رقم بنتی ہے، یہ رقم ہر 6ماہ کے بعد کمپاؤنڈ ایبل بھی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید بھاری سود کی ادائیگی سے بچنے کے لیے جرمانے کو ختم کرنا ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر ہائی کمیشنوں، سفارت خانوں اور مرکزی بینک کے کھاتوں کو خودمختار اثاثہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا انہیں قبضے سے استثنیٰ حاصل ہے۔

اس معاملے میں نیب کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ذرائع نے اس واقعے کو ایک بہترین مثال قرار دیا کہ ‘چیزوں کو کس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا’۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک کیس: نیب نے سرکاری افسران، غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف ریفرنس دائر کردیا

یہ پاکستان کو اس طرح کا دوسرا بڑا دھچکا ہے جہاں اس سے قبل 16 دسمبر 2020 کو برطانوی ورجن آئی لینڈ (بی ویوی) میں ہائی کورٹ آف جسٹس نے تیتھیان کاپر کمپنی کی درخواست پر حکم امتنازع جاری کرتے ہوئے 12 جولائی 2019 کو ریکو ڈیک کیس میں بین الاقوامی مرکز برائے سرمایہ کاری کے تنازعات کے تصفیے کے ذریعے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے 5.97ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔

20 جون 2000 کو پاکستان کو ابتدائی طور پر براڈشیٹ ایل ایل سی کے ذریعہ اٹھائے گئے تنازع پر 5کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے دعوے کا سامنا کرنا پڑا جہاں پاکستانیوں کی لوٹی ہوئی رقم اور آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کی بازیابی کے لیے مذکورہ کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

کمپنی اور نیب کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مختلف آف شور کمپنیوں میں رکھے گئے ملک کے چوری شدہ اثاثوں کی بازیابی میں کمپنی کو مدد کرنا تھی لیکن تنازع سروس فیس کی ادائیگی پر پیدا ہوا جسے بعد میں لندن میں بین الاقوامی ثالثی عدالت کے حوالے کیا گیا جہاں ثالث سر انتھونی ایونس کیو سی کے سامنے قانونی چارہ جوئی کی منظوری اور انفورسمنٹ (ثالثی معاہدوں) کے سیکشن 4 اور 6 کے تحت ایک عبوری ایوارڈ کے طور پر ختم کیا گیا۔

معاہدے کے تحت نیب نے بازیاب یا کھوج کی گئی رقم کا 20 فیصد کمپنی کو ادا کرنے پر اتفاق کیا، بیورو نے براڈ شیٹ کے نمائندے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے ذریعہ 50لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرتے ہوئے مئی 2008 میں معاہدے کا اختتام کیا لیکن یہ فرم نیب کو ثالثی کی بین الاقوامی عدالت میں لے گئی اور یہ دعوی کیا کہ اسے وہ رقم نہیں ملی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک: اربوں ڈالر کا راز

دسمبر 2018 میں انگریزی کی سابق عدالت اپیل جج سر انتھونی ایونز کیو سی نے حکومت پاکستان کی جانب سے براڈشیٹ کو 2کروڑ 20لاکھ کی ادائیگی کا حکم جاری کیا، جولائی 2019 میں حکومت نے حکم کے خلاف اپیل دائر کی لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ثالث کے علم میں آیا کہ پاکستان اور نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے کو غلط طور پر مسترد کیا ہے اور فیصلہ دیا کہ کمپنی ہرجانے کی حقدار ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ملک کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کیس کی صحیح پیروی نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ متضاد منافع کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نظریے کے تحت کسی بھی شق کو اگر مبہم سمجھا جائے تو اسے اس فریق کے خلاف جانا چاہیے جس نے اس شق کو بنایا، متعارف کرایا یا شامل کرنے کی درخواست کی۔

عرفان قادر نے کہا کہ اس فرم نے معاہدے میں ایک شق داخل کی تھی جس کے تحت اس کو نہ صرف ملک سے باہر اثاثوں میں حصہ ملنا تھا اور پاکستان میں کسی بھی دوسری تنظیم جیسے نیب وغیرہ کے ذریعہ ہونے والی وصولیوں میں بھی حصہ ملنا تھا۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک کیس میں 6 ارب ڈالر جرمانہ، پاکستان نے امریکی عدالت سے رجوع کرلیا

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی فرم نے بیرون ملک نیب کے کسی بھی ملزم کا ایک بھی اثاثہ برآمد نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان کے اندر ہونے والی بازیابیوں میں اپنا حصہ لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدہ اسی فرم کے ذریعے تیار کیا گیا تھا لہٰذا کسی بھی ابہام کی ذمہ داری اس فرم پر ڈالی جانی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں