سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، چیف جسٹس

11 جنوری 2021
عدالت کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہمیں پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، عدالت مجموعی طور پر جائزہ لےکر ہی فیصلہ کرے گی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرلز و دیگر لوگ پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ 4 جنوری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات کرانے سے متلعق صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پہلی سماعت کے بعد چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلیز، الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اسمبلیز، الیکشن کمیشن کو نوٹس

ساتھ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور دیگر ایڈووکیٹ جنرلز کو اپنی تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹس اخبارات میں بھی شائع کیا جائے تاکہ جو اس معاملے پر رائے دینا چاہے وہ دو ہفتوں میں تحریری معروضات عدالت میں جمع کرائے۔

بعد ازاں مذکورہ معاملے پر آج مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ پیش ہوئے اور کہا کہ ہم تحریری معروضات جمع کرانا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ دفتر ہمارا تحریری جواب وصول نہیں کر رہا، اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ تحریری جواب داخل کرا دیں۔

جس کے بعد ان کی جانب سے تحریری معروضات جمع کروائی گئیں، جس میں صدارتی ریفرنس کی مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس ناقابل سماعت ہے، یہ ریفرنس پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کے مترادف ہے۔

اس موقع سماعت کے دوران ایڈووکیٹ ملک قمر افضل اور مدثر حسن نے بھی مقدمے میں فریق بننے کی استدعا کی جسے عدالتنے قبول کرلیا۔

ساتھ ہی پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئرمین ایوان بالا رضا ربانی نے کہا کہ بطور سینیٹر مقدمے میں فریق بننا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو فریق بننے کی اجازت ہے، تحریری جواب داخل کرائیں۔

بعد ازاں جب کیس کی سماعت میں دلائل شروع ہوئے تو ایڈووکیٹ مدثر حسن نےکہا کہ میری دانست میں سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہیں، یہ پارلیمنٹ کا کام ہے، تاہم اس دوران وکیل قمر افضل نے یہ کہا کہ میں اوپن اور خفیہ دونوں طریقوں کے انتخابات پر دلائل دوں گا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری دلائل دے دیں لیکن پہلے یہ بتائیں کہ آپ ریفرنس کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت، جس پر قمر افضل کا کہنا تھا کہ میں حمایت کرتا ہوں لیکن میری رائے میں سپریم کورٹ اپنی تجاویز بھی دے سکتی ہے۔

سماعت کے دوران سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے صوبائی حکومت کے جواب جمع کرانے سے متعلق جب کہا گیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سندھ حکومت کا جواب میٹھا ہوگا؟ جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔

بعد ازاں بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگرچہ جواب جمع کرانے کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت تھی آپ اس ہفتے جمع کرادیں۔

یہ بھی پڑھیں: مارچ میں ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں 65 فیصد اپوزیشن اراکین شامل

اس موقع پر وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ میں نے جواب جمع نہیں کرایا لیکن جواب تیار ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ابھی عدالت میں جمع کرادیں، سارے جوابات آجائیں تو پھر معاملے کو دیکھتے ہیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحس نے پوچھا کہ کیا قانون کے مطابق کوئی عام شہری آزادانہ سینیٹ الیکشن لڑسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل کوئی قانونی قدغن نہیں، کوئی بھی شہری الیکشن لڑسکتا ہے، قومی اسمبلی کے الیکشن براہ راست ہوتے ہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے تحریری معروضات جمع کرائیں اور کہا کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت قابل سماعت ہے، صدارتی ریفرنس آرٹیکل 226 کے اسکوپ سے متعلق ہے جبکہ سپریم کورٹ صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، مزید یہ کہ عدالت عظمیٰ مستقبل کی قانون سازی سے متعلق بھی رائے دے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے۔

اپنے دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر قانونی سوال پر سپریم کورٹ کی رائے لے سکتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے سوال قانونی یا عوامی مفاد کا ہے یا نہیں؟

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بھی قوانین پر سپریم کورٹ سے رائے لی گئی ہے، کئی بار قانون سازی سے قبل صدر نے عدالتوں سے رائے لی، مزید یہ کہ عدالت ماضی میں بھی صدارتی ریفرنسز قابل سماعت قرار دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے معاملے پر بھی صدارتی ریفرنس آیا تھا، عدالت نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا یا مسترد کرنے کی قرار داد منظور کر سکتی ہے۔

خالدجاوید خان نے کہا کہ بھٹو ریفرنس کے علاوہ عدالت تمام ریفرنسز پر فیصلہ دے چکی ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت میں بھی سینیٹ انتحابات اوپن بیلٹ سے ہوتے ہیں، سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے تو الیکشن ایکٹ میں خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہوتا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت کی منظوری سے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلئے ریفرنس دائر

انہوں نے کہا کہ صدارتی انتحابات کا مکمل طریقہ آئین میں درج ہے، صدارتی انتحابات آئین کے تحت خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین کے تحت کونسے انتحابات ہوتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی انتحابات کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے، جن انتحابات کا طریقہ کار آئین میں نہیں وہ قانون کے تحت ہوں گے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق نہیں، ساتھ ہی جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار آئین میں نہیں، ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ کیا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن آئین کے تحت ہوتا؟ کیونکہ آئین کے تحت الیکشن کی جو تشریح آپ نے کی، اس کے مطابق اسپیکر کا انتخاب قانون کے تحت بنتا ہے۔

اسی دوران بینچ کے ایک اور رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کو اس نقطے کی مزید وضاحت کرنا ہوگی۔

عدالتی ریمارکس و استفسار پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے، آئین اسمبلی کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے، رولز آئین کے تحت بنے اس لیے الیکشن بھی آئین کے تحت ہی ہوگا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کی اسکیم بہت واضح ہے اور اس اسکیم کے تحت مختلف باڈیز اور اداروں کی تشکیل ہوتی ہے۔

جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آئین مشینری فراہم کرتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل اور کچھ انتخابات ایسے ہیں جو قانون کے تحت ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی آئین مشینری فراہم کرتا ہے اور انتخابات قانون کے تحت ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 متفقہ طور پر منظور ہوا تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے یہ علم نہیں، تاہم ایکٹ منظور ہوا۔

اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ انتخابات خفیہ ہوں گے اور آئین میں بھی لکھا ہوا ہے، جب آئین میں لکھا گیا تو پھر ایکٹ میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آئین کے تحت انتخابات ہوتے ہیں تو پھر کسی قانون یا ایکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، بھارت کی مثال بہت واضح ہے انہوں نے یہ معاملہ حل کردیا، سینیٹ انتخابات میں بہت زیادہ پریفرنس ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ آفسز/باڈیز کے لیے آئین صرف مشینری فراہم کرتا ہے لیکن انتخابات قانون/ایکٹ کے تحت ہوتے ہیں، میں وضاحت کروں گا کہ کون سے آفسز صرف آئین کے تحت فِل ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین میں بھی الیکشن قانون کے لیے خصوصی پروویژن دی گئی ہے، صدر کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار آئین میں فراہم کیا گیا ہے، اس کے لیے کسی ایکٹ یا قانون کی ضرورت ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہی وہ ادارہ ہے جو آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کا انعقاد کرتا ہے، آئین کے تحت انتخابات وہ ہوتا ہے جس کی مشینری اور طریقہ کار بھی آئین میں دیا گیا ہو۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی آئین کے تحت جو انتخابات ہوتے ہیں اس کے لیے کسی ایکٹ یا قانون کی ضرورت نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کا طریقہ کار خاموش ہے لیکن سینیٹ کے انتخابات کے لیے خفیہ رائے شماری کا طریقہ مروج ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار واضح نہیں ہے، گزشتہ آئینی ترامیم میں سینیٹ انتخابات کے بارے میں وضاحت کے موقع کو ہم نے گنوا دیا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، عدالت مجموعی طور پر جائزہ لےکر ہی فیصلہ کرے گی۔

بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ 13 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دے دی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سینیٹ انتخابات کے لیے آئینی ترمیم نہیں لائے گی، اعظم سواتی

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

یاد رہے کہ 15 دسمبر کو وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے اور اوپن بیلٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ کار لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں پر وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ آئین کے تحت 10 فروری سے قبل سینیٹ انتخابات نہیں ہوسکتے۔

یاد رہے کہ پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے 104 اراکین میں سے 52 اراکین اپنی 6 سالہ سینیٹر کی مدت پوری ہونے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔

اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو مارچ میں جو 52 اراکین ریٹائر ہورہے ہیں، ان میں سے 34 کا تعلق اپوزیشن جماعتوں جبکہ 18 حکومتی بینچوں سے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں