فیس بک اور گوگل پر اجارہ داری قائم کرنے پر کئی اینٹی ٹرسٹ کیسز چل رہے ہیں، مگر اب ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے امریکی ریاست ٹیکساس کی جانب سے دائر اینٹی ٹرسٹ کیس کی دستاویزات حاصل کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں کمپنیوں کے درمیان 2018 میں ایک معاہدہ ہوچکا ہے۔

دونوں کمپنیوں کے درمیان یہ معاہدہ اشتہارات کے لیے مقابلہ کم کرنے کے لیے کیا گیا، جسے جیڈائے بلیو کا نام دیا گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت فیس بک اور گوگل نے ایک دوسرے کے مختلف شعبوں میں اشتہارات کے حوالے سے آسانیاں فراہم کی تھیں۔

رپورت کے مطابق ماہدے سے فیس بک کو زیادہ فائدے حاصل ہوئے کیونکہ اسے اشتہارات کی نیلامی کے لیے زیادہ وقت ملا، اشتہارات کی میزبانی کرنے والی سائٹس کو براہ راست بل دیئے گئے اور اشتہارات کو دیکھنے والوں کو سمجھنے کے لیے گوگل کی مدد ملی۔

اس معاہدے کے تحت فیس بک ان 90 فیصد اشتہارات کی نیلامی کا حصہ بن سکتی تھی جو اسے صارفین کی شناخت کرنے میں مدد دیتے، جبکہ گوگل کو نیلامی کے اس عمل میں شرکت سے گریز کا کہا گیا تھا۔

گوگل کے دیگر اشتہاری شراکت داروں کے لیے یہ معاہدہ کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔

مقدمے میں گوگل پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے فیس بک کو متعدد اشتہارات کو حاصل کرنے میں مدد کی اور مخالفین کو مایوسی کا سامنا ہوا۔

فیس بک اور گوگل اس طرح کے معاہدے کے حوالے سے الزامات کی پہلے ہی تردید کرچکے ہیں۔

فیس بک کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ گوگل کی طرح معاہدوں سے اشتہارات کی نیلامی میں مسابقت بڑھانے میں مدد ملتی ہے، اور اس حوالے سے الزامات بے بنیاد ہیں۔

گوگل کے ترجمان نے اس بارے میں کہا کہ ٹیکساس کے دائر کردہ مقدمے میں معاہدے کی وضاحت غلط کی گئی ہے۔

گوگل کی جانب سے ان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ایک بلاگ بھی پوسٹ کیا گیا۔

ویسے ضروری نہیں کہ اس طرح کے معاہدے قوانین کے خلاف ہوں، مگر اس سے عندیہ ملتا ہے کہ 2 بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں کس طرح اسکروٹنی کے حوالے سے شعور رکھتے ہیں۔

اس معاہدے کی ایک شق کے تحت دونوں کمپنیاں اشتہارات کے لیے اپنے اقدامات پر تحقیقات کیے جانے پر ایک دوسرے سے تعاون اور معاونت کرنے کی پابند ہیں۔

معاہدے میں کم از کم 20 بار اینٹی ٹرسٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں