نقیب اللہ قتل کیس: 7 گواہان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2021
مذکورہ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت 3 کے جج نے کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
مذکورہ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت 3 کے جج نے کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے 'جعلی مقابلے' میں قتل کے کیس میں پولیس افسران کے خلاف گواہی دینے کے لیے پیش نہ ہونے پر 7 گواہان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے تقریباً 2 درجن ماتحتوں کے خلاف 13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ اور دیگر 3 افراد کو 'طالبان عسکریت پسند' قرار دے کر جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا مقدمہ درج ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو مذکورہ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت 3 کے جج نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب کیس میں راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے، جبران ناصر

سابق ایس ایس پی راؤ انوار، سابق ڈی ایس پی قمر احمد، جو ضمانت پر ہیں، عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ 13 زیر حراست ملزمان کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا۔

کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی عابد قائم خانی نے بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے استغاثہ کے 2 گواہان کو پیش کیا، عدالت نے دونوں گواہان کے بیانات ریکارڈ کرلیے جبکہ وکیل دفاع نے ان سے جرح کی۔

تاہم جج نے دیگر گواہان کی غیر حاضری کا سختی سے نوٹس لیا اور تفتیشی افسر سے دریافت کیا کہ وہ کیوں اپنے بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ گواہان کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ حاضر نہ ہوئے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: ایک اور گواہ نے راؤ انوار کے خلاف اپنا بیان واپس لے لیا

عدالت کو بتایا گیا کہ ایک گواہ تبلیغی سفر پر گئے ہوئے ہیں اور وہ مارچ کے مہینے میں واپس آئیں گے۔

جج نے ہدایات دینے کے باوجود عدالت سے غیر حاضر رہنے پر 3 پولیس اہلکاروں اور 4 دیگر گواہوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

علاوہ ازیں جج نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ ان افراد کو گرفتار کر کے آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے اور مزید سماعت 11 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔

نقیب اللہ کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ محسود ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھا، جنہیں جنوری 2018 میں کراچی میں سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں 'جعلی مقابلے' میں مار دیا گیا تھا۔

راؤ انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا لیکن اس کالعدم تنظیم کے جنوبی وزیرستان چیپٹر کے ترجمان نے راؤ انوار کے اس دعوے کو 'بے بنیاد' قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نقیب اللہ کا ان کی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے بھی سابق ایس ایس پی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کا کسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس کے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف

نقیب اللہ جن کا شناختی کارڈ پر نام نسیم اللہ تھا ان کے بارے میں ایک رشتے دار نے ڈان کو بتایا تھا کہ نقیب دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا۔

اس تمام معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا جبکہ جنوری 2019 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور دیگر 3 لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں افراد کے خلاف درج مقدمات کو خارج کردیا تھا۔

بعد ازاں مارچ میں اے ٹی سی نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔

تاہم اس کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جبکہ دیگر 13 ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں، اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں