فرانس میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف متنازع بل پر بحث کا آغاز

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
اس قانون کے تحت اگر ڈاکٹروں نے لڑکیوں پر کنواری پن کا تجربہ کیا تو جرمانہ یا جیل بھی ہوگا —فائل فوٹو: اے پی
اس قانون کے تحت اگر ڈاکٹروں نے لڑکیوں پر کنواری پن کا تجربہ کیا تو جرمانہ یا جیل بھی ہوگا —فائل فوٹو: اے پی

پیرس: فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک متنازع بل پر بحث شروع کردی جس میں اسلام کو نشانہ بناتے ہوئے فرانس کے وزیر داخلہ نے کہا کہ انتہا پسندی 'بیماری' ہے جو ملک کے اتحاد کو کھوکھلا کررہی ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پارلیمنٹ نے قانون سازی پر دو ہفتوں کے لیے منتازع بحث کا آغاز کردیا جبکہ بائیں بازو کا کہنا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، ایران

اس قانون کو علیحدگی پسندی کے بل کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وزرا کو خوف ہے کہ بنیاد پرست فرانس کی سخت سیکولر شناخت سے الگ معاشرے بنا رہے ہیں۔

اس بل پر مسلم ممالک کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارامنین نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 'ہمارا ملک علیحدگی پسندی سے دوچار ہے سب سے زیادہ مذہبی انتہا پسندی سے کیونکہ وہ ہمارے قومی اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بیماری کو کیا کہنا ہے آپ کو دوا تلاش کرنی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: اردوان کی دوبارہ میکرون کو ’دماغی معائنے‘ کی تجویز، مسلم ممالک کا فرانس کے بائیکاٹ کا مطالبہ

وزیر داخلہ نے کہا کہ بل کا متن مذاہب سے مقابلہ نہیں کرتا ہے بلکہ اسلام پسندوں کے قبضے کی کوشش کے خلاف ہے۔

اس قانون کے تحت اگر ڈاکٹروں نے لڑکیوں پر کنواری پن کا تجربہ کیا تو جرمانہ یا جیل بھی ہوگا۔

علاوہ ازیں ایک سے زائد شادیاں فرانس میں پہلے ہی کالعدم ہے لیکن نیا قانون درخواست دہندگان کو رہائش گاہ کے کاغذات جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کرے گا۔

خیال رہے کہ فرانسیسی صدر اسلام اور مسلمان مخالف بیانات کے باعث متعدد مسلم ممالک میں متنازع حیثیت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمانوئل میکرون کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی ضرورت ہے۔

ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون 'انتہا پسندی' کو ہوا دے رہے ہیں۔

فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے جس کے بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی۔

انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں 'اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد' کروانا ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں