کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا انکشاف

04 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ذیابیطس کو نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت میں سنگین اضافے کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔

مگر نئے شواہد سے عندیہ ملا ہے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ 1 اور 2 کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے، حالانکہ ماضی میں ان میں اس بیماری کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔

طبی جریدے ڈائیبیٹس، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک سے زائد 14.4 فیصد) کورونا وائرس کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کووڈ 19 سے صحتیابی کے بعد ہوئی۔

اس تحقیق میں 8 مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار 711 کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں اس وبائی مرض کے باعث ہونے والا ورم اور انسولین مسائل ذیابیطس کے نئے کیسز کی وجہ ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم ان میں سے کچھ کیسز میں ہوسکتا ہے کچھ مریض پہلے سے ذیابیطس کے شکار ہوں مگر اس کا علم ہونے کووڈ کے باعث ہسپتال پہنچنے کے بعد ہوا ہو۔

مگر شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 میٹابولک صحت کے مسائل کو اس حد تک بدتر کرسکتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص ہوجائے۔

محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی تناؤ ان ریگولیٹری ہارمونز کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بڑھتا ہے تاکہ جسم درپیش مسئلے کا مقابلہ کرسکے، تو ایسے افراد جو پہلے ہی ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے سے دوچچار ہوں، ان میں ذیابیطس کا مرض تشکیل پاجاتا ہے۔

پہلے سے درپیش مسائل جیسے پری ذیابیفس، موٹاپا، انسولین کی مزاحمت یا ہائی بلڈ پریشر سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں اچانک ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص کیوں ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق ان مسائل کے نتیجے میں انسولین کے حوالے سے جسمانی ردعمل کمزور ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا۔

مگر اس بات کی زیادہ وضاحت نہیں کی جاسکی کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ 1 کی تشخیص کیوں ہورہی ہے، کیونکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب جسم کے لیے انسولین کی حساسیت گھٹ جاتی ہے۔

مگر ٹائپ 1 میں جسم انسولین بنانے سے قاصر ہوتا ہے کیونکہ لبلبے کے مخصوص خلیات کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس حوالے سے فی الحال بہترین خیال تو یہی ہے کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اس کے خلاف لڑتے ہوئے جسم کے کچھ خلیات کو تباہ کردیتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس یا جسمانی مدافعتی ردعمل سے لبلبے کے بیٹا خلیاتا کے افعال پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ذیابیطس ٹائپ 1 کا مرض تشکیل پاتا ہے۔

محققین کے مطابق آٹو امیون امراض کے شکار یا مدافعتی مسائل کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد میں کووڈ کے نتیجے میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال ہم پوری طرح جان نہیں سکے کہ یہ دونوں بیماریاں کس طرح ایک دوسرے منسلک ہیں اور کس حد تک طویل المعیاد اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

تاہم انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ کووڈ 19 کی ایک طویل المعیاد پیچیدگی ثابت ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل جون 2020 میں طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں 17 طبی ماہرین کا ایک خط شائع ہوا تھا، جس میں اس مسئلے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

اس خط میں بتایا گیا کہ ایس 2 نامی وہ پروٹین جس کو سارس کوو 2 وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، صرف پھیپھڑوں میں ہی نہیں بلکہ ان تمام اعضا اور ٹشوز میں پایا جاتا ہے جو گلوکوز میٹابولزم میں کردار ادا کرتے ہیں جیسے لبلبہ۔

محققین کا ماننا تھا کہ ان ٹشوز میں داخل ہوکر یہ وائرس ممکنہ طور پر اپنی نقول بناتا ہے اور گلوکوز میٹابولزم کے افعال کو متاثر کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یقیناً اس بات کا بھی امکان ہے کہ ذیابیطس کا علم انہیں ہسپتال میں اب ہوا ہو کیونکہ وہاں ان کا مکمل معائنہ ہوا اور انفیکشن بڑھنے سے شوگر بھی بڑھ گئی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ تعداد میں کوڈ 19 میں ذیابیطس کی تشخیص ہونا درحقیقت توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہ مشکل لگتا ہے کہ اتنے لوگ کورونا وائرس کی تشخیص سے قبل ذیابیطس سے لاعلم رہے ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ مریضوں میں میٹابولزم افعال پہلے سے متاثر نہ ہوں بلکہ یہ وائرس اتنا طاقتور ثابت ہوا کہ ذیابیطس کے مرض کا باعث بن گیا، ہم ابھی ان مشاہدات کی بنیاد پر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں