کورونا وائرس میں میوٹیشنز دوسری بار لوگوں کو کووڈ کا شکار بناسکتی ہیں، تحقیق

06 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم حالیہ مہینوں میں کووڈ 19 کے شکار ہونے والے افراد کو بھی دوبارہ بیمار کرسکتی ہے۔

یہ بات ایک تجرباتی ویکسین کے ٹرائل کے دوران ابتدائی نتائج میں سامنے آئی۔

یہ ابھی حتمی نتائج نہیں مگر اس سے عندیہ ملتا ہے کہ جو لوگ پہلے ہی کورونا وائرس کے شکار ہوچکے ہیں، ان کو اس نئی قسم کے خلاف زیادہ تحفظ حاصل نہیں۔

نووا واکس کی کووڈ ویکسین کے جنوبی افریقہ میں ٹرائل میں شامل پلیسبو گروپ میں شامل افراد کو ماضی میں کورونا وائرس کا سامنا ہوچکا تھا، ان میں وہاں دریافت ہونے والی نئی قسم کی تشخیص بھی ہوئی۔

اس سے یہ عندیہ ملا کہ لوگوں کو سابقہ بیماری کے باوجود اس نئی قسم بی 1.351 سے مکمل تحفظ حاصل نہیں، جو اس وقت جنوبی افریقہ میں بالادست قسم ہے۔

ابتدائی نتائج ٹرائل کے ڈیٹا پر مبنی ہیں جس پر ماہرین میں بحث کا آغاز ہوا ہے جبکہ تشویش بھی ظاہر کی گئی ہے۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز کے ڈائریکٹر انتھونی ایس فاؤچی نے اس حوالے سے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ قدرتی بیماری سے حاصل ہونے والی مدافعت میوٹیشن کے عمل سے گزرنے والے وائرس کے خلاف مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

ماہرین نے کہا کہ یہ خطرہ کتنا زیادہ ہوسکتا ہے، اس بارے میں تو ابھی اتفاق نہیں مگر اس نئی قسم سے ری انفیکشن ایک واضح خطرہ ہے جس پر جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے وائرلوجسٹ اینجلا راسمین نے کہا کہ 'میں ابتدائی نتائج پر لوگوں کی رائے پر بہت زیادہ فکرمند ہوں کیونکہ اس سے لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی امید ختم ہوسکتی ہے، مجھے فکر ہے کہ لوگوں کو اس سے یہ پیغام ملے گا کہ ہم کبھی اس وائرس سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے، وہ بھی جب ڈیٹا میں ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا'۔

انہوں نے اور دیگر ماہرین نے زور دیا کہ بظاہر ری انفیکشن سے صحت پر سنگین اثرات مرتب نہیں ہوتے اور دوبارہ بیمار ہونے کی شرح زیادہ ہونے کے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں۔

نووا واکس نے گزشتہ ہفتے برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں ہونے والے الگ الگ ویکسین ٹرائلز کے نتائج جاری کیے تھے۔

ان نتائج میں کہا گیا تھا کہ کچھ افراد میں دوسری بار اس بیماری کی تشخٰص ہوئی جو کہ ممکنہ طور پر بی 1.351 قسم تھی، جو جنوبی افریقہ میں اب سب سے عام قسم ہے۔

رواں ہفتے کمپنی نے ٹرائل کے نتائج پری پرنٹ سرور پر جاری کی تھے۔

نتائج میں بتایا گیا کہ جنوبی افریقہ میں ٹرائل کے آغاز پر 3 فیصد افراد میں اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا تھا، جس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ اس سے پہلے بیماری کو شکست دے چکے ہیں۔

مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پہلے بیمار ہونے والے افراد میں تحفظ کی موجودگی ضروری نہیں، جو لوگ پہلے اس کا شکار ہوچکے تھے، وہ اسی شرح سے نئی قسم کا شکار ہوئے جتنے پہلی بار کووڈ میں مبتلا ہونے والے افراد، جو حیران کن تھا کیونکہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہیں کسی حد تک تحفظ حاصل ہوگا۔

ماضی میں کووڈ کے شکار ہونے والے لگ بھگ 4 فیصد افراد میں اس بیماری کی دوبارہ تشخیص ہوئی، اتنی ہی شرح پہلی بار اس بیمار کا شکار ہونے والے افراد کی تھی۔

فریڈ ہیچینسن کینسر ریسرچ سینٹر کے وائرلوجسٹ لیری کورے نے کہا کہ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ویکسینیشن کو بنیادی طور پر قدرتی امیونٹی سے بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس تجرباتی ویکسین کی 2 خوراکیں سے اس نئی قسم کے خلاف بھی تحفظ ملتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تحقیق ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے کے تعین کے لیے تھی اور اسے ری انفیکشن کے امکان کو جانچنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔

نتائج سے اجتماعی مدافعت کے حصول کی حکمت عملی کے خطرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔

اس ٹرائل کے نتائج سے جنوبی افریقہ کے محققین کی ایک تحقیق کے نتائج کو بھی تقویت ملتی ہے جو کورونا کی جنوبی افریقی قسم پر کی گئی تھی۔

اس تحقیق میں لیبارٹری ٹیسٹوں کے دوران دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ کے مریضوں کے لگ بھگ 5 فیصد پلازما نمونوں میں جنوبی افریقی قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کی صلاحیت کم ہوگئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں