سمادھی نذرآتش کیس: سپریم کورٹ نے متروکہ املاک وقف بورڈ کے چیئرمین کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک مرتبہ نقصان وصول ہوگا تو دوبارہ کوئی ایسا کرنے کا نہیں سوچے گا —فائل فوٹو: اے پی
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک مرتبہ نقصان وصول ہوگا تو دوبارہ کوئی ایسا کرنے کا نہیں سوچے گا —فائل فوٹو: اے پی

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے تیری میں ایک ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ سے متعلق نوٹس کی سماعت میں چیئرمیئن متروکہ املاک وقف بورڈ کے چیئرمین کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی اور کرک مندر کی تعمیر کا ٹائم فریم طلب کر لیا۔

سماعت میں اقلیتی رکن اسمبلی رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ مندر کی تعمیر کا کام ابھی تک شروع نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کرک: ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، جے یو آئی (ف) رہنما سمیت 31 افراد گرفتار

سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرک مندر کے معاملے پر ذمہ داران سے ابھی تک ریکوری نہیں ہوئی، کرک مندر کو جن لوگوں نے نقصان پہنچایا ان سے وصولی کریں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے مندر کی تعمیر کے لیے 3 کروڑ 48 لاکھ روپے مختص کیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرک واقعے میں 119 افراد گرفتار ہوئے، ان سے نقصان کی رقم وصول کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک مرتبہ نقصان وصول ہوگا تو دوبارہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں، مندر کی تعمیر فوری شروع ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ متروکہ املاک وقف بورڈ کی ساری پراپرٹیز لیز پر دے دی گئی ہے اور کچھ پراپرٹیز پر مستقل طور کسی کو دی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: سمادھی نذرآتش کیس: جن لوگوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں، چیف جسٹس

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ متروکہ املاک وقف بورڈ کی 14 جائیدادوں پر ابھی بھی غیر قانونی قبضہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ متروکہ املاک وقف بورڈ کی جائیداد کسی کو نہیں دی جا سکتی، وقف بورڈ اپنے زمین پر ہاوسنگ سوسائیٹیز کیسے بنا سکتا ہے، سپریم کورٹ نے کراچی میں کثیر منزلہ پلازہ گروائے، ان کثیر منزلہ پلازوں میں بھی متروکہ کی پراپرٹیز تھیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متروکہ املاک وقف بورڈ کے پاس یہ جائیدادیں امانت ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ متروکہ املاک نے تمام جائیدادوں کی جیو ٹیگنگ کی ہے جو مثبت پہلو ہے۔

مزید پڑھیں:کرک مندر واقعہ: غفلت برتنے والے 16 پولیس اہلکار نوکری سے فارغ

سماعت میں کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل نے عدالت سے شکوہ کیا کہ متروکہ املاک وقف بورڈ، کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ متروکہ املاک کے چیئرمین کو بلا لیتے ہیں۔

رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ کمشنر ملتان نے پرلاب مندر میں ہولی کے تہوار کے انعقاد پر ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں، کمشنر کہتے ہیں کہ اگر ہولی تہوار کرایا تو سیکیورٹی کا مسئلہ بن جائے گا۔

جس پر عدالت نے حکومت پنجاب کو ہولی کے تہوار پر پرلاب مندر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب اس تہوار کے انعقاد کے معاملے کو خود دیکھیں۔

بعدازاں عدالت نے متروکہ املاک وقف بورڈ کے چیئرمین کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی۔

کرک واقعے کا پس منظر

واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔

واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہندوؤں کے مقدس مقامات کی حالت زار غفلت کا منظر پیش کررہی ہے'

عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔

مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔

بعدازاں مذکورہ واقعے کی سوشل میڈیا پر کافی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جبکہ حکام نے بھی نوٹس لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی۔

جس کے بعد 31 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس لے لیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں