ایسٹرازینیکا ویکسین کورونا کی جنوبی افریقی قسم کیخلاف محض 10 فیصد مؤثر، تحقیق

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو

حال ہی میں دریافت کیا گیا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کورونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے خلاف بھی بہت زیادہ مؤثر ہے۔

تاہم یہ ویکسین کورونا وائرس کی جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے خلاف کچھ زیادہ مؤثر نہیں۔

یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔

تحقیق کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کی جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم کے خلاف محض 10 فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

یہ تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی اور اس میں 2 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 31 سال تھی۔

تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین اس نئی قسم کے معمولی اور معتدل کیسز میں بہت کم تحفظ فراہم کرتی ہے، تاہم سنگین بیماری کے خلاف زیادہ مؤثر ہوسکتی ہے۔

جنوبی افریقہ نے اس تحقیق کے نتائج کے بعد اپنے ملک میں آکسفورڈ۔/ایسٹرازینیکا ویکسین کی تقسیم کو روک دیا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین کی قیادت کرنے والے Witwatersrand یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر مہدی نے بتایا کہ یہ ٹرائل چھوٹے پیمانے پر تھا اور اس میں یہ تعین کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ویکسین کی افادیت اس نئی قسم کے خلاف 60 فیصد تک ہے یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ اس نئی قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت 10 فیصد ہے، جو کہ یقیناً 60 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے اور بڑے پیمانے پر تحقیق میں بھی 40 یا 50 فیصد افادیت بہت مشکل نظر آتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کے خلاف ممکنہ طور پر ویکسینز کی افادیت زیادہ ہوسکتی ہے، جس کی بنیاد جانسن اینڈ جانسن ویکسین کے ٹرائل کے نتائج ہیں، جو اسی سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر تیار ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی امید ہے کہ برطانوی ویکسین جانسین اینڈ جانسین ویکسین کی طرح سنگین بیماری کے خطرے میں کمی لانے کے لیے کردار ادا کرسکتی ہے۔

پروفیسر شبیر مہدی نے کہا کہ لیبارٹری اسٹڈیز سے انکشاف ہوا ہے کہ صرف اینٹی باڈیز ہی بیماری کی سنگین شدت کے خلاف مؤثر ثابت ہوتی ہیں بلکہ ٹی سیل امیونٹی بھی کردار ادا کرتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اس وقت دستیاب ویکسینز وبا کے خاتمے میں ناکافی ثابت ہوں گی اور اسی وجہ سے کمپنیوں نے ویکسین کے نئے ورژنزز کی تیاری پر کام بھی شروع کردیا ہے۔

تحقیق میں شامل کسی فرد میں کووڈ کی سنگین علامات کو دریافت نہیں کیا گیا۔

آکسفورڈ ویکسین گروپ کی جانب سے اس ویکسین کو تیار کرنے والی ٹیم کی سربراہ پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مجموعی کیسز کی تعداد میں شاید کمی نہیں لاسکے مگر پھر بھی اس ویکسین سے اموات، ہسپتال میں داخلے اور سنگین بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم کے خلاف معمر افراد میں ویکسین کی افادیت کا تعین کرنے میں کچھ وقت لگے گا اور ہم متعدد ٹرائلز کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ ویکسین کی افادیت وائرس کی کچھ اقسام کے خلاف گھٹ جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ محققین کی جانب سے ویکسین کو اپ ڈیٹ کرنے پر کام جاری ہے اور جنوبی افریقی قسم کے اسپائیک سیکونس پر مبنی ورژن پر کام ہورہا ہے جو موسم خزاں تک تیار ہوسکتا ہے۔

برطانیہ کے ویکسینز ویر ندیم زاہوی نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس قسم کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن جس حد تک ممکن ہوگا، تیزی سے جاری رہے گی، جبکہ متاثرہ حصوں میں ٹیسٹنگ کا عمل تیز ترین کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر سال ویکسینیشن کی ضرورت یا موسم خزاں میں بوسٹر ڈوز اور پھر سالانہ بنیادوں پر ویکسینیشن کے امکانات کو دیکھ رہے ہیں، جیسا فلو ویکسینیشن میں ہوتا ہے، جس کی دنیا میں پھیلنے والی وائرس کی قسم کو دیکھ کر ویکسین تیار کی جاتی ہے۔

نتائج حیران کن نہیں کیونکہ جنوبی افریقی قسم میں ہونے والی ایک میوٹیشن ای 484 کے بظاہر اس وائرس کو مدافعتی ردعمل سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

اس سے قبل جانسن اینڈ جانسن اور نووا واکس کی ویکسینز کی افادیت بھی جنوبی افریقی قسم کے خلاف کم دریافت ہوئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں