امریکی صدر جوبائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ چین میں اپنے ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی، جس میں ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں کے خلاف بیجنگ کے کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق سے متعلق امور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

غیرملکی خبرساں ادارے 'اے پی' کے مطابق جوبائیڈن نے شی چن پنگ سے دوطرفہ تجارتی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: چین کا جوابی اقدام، امریکا کو چینگڈو میں قونصل خانہ بند کرنے کا حکم

دونوں رہنماؤں نے ایسے وقت پر گفتگو کی جب چین میں امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لیے پینٹاگون ٹاسک فورس کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں امریکی صدر، میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد فوجی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کررہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ جوبائیڈن نے بیجنگ کے 'زبردستی اور غیر منصفانہ معاشی طریقوں' کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا بحیرہ جنوبی چین میں 'ملٹرائزیشن' کا روح رواں بن رہا ہے، چینی وزیر خارجہ

بیان میں کہا گیا کہ جوبائیڈن نے چینی صدر سے مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور اور نسلی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں اور تائیوان کے خلاف بیجنگ کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔

جوبائیڈن نے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد ٹوئٹر پر کہا کہ 'میں نے شی چن پنگ سے کہا کہ امریکی عوام کو فائدہ پہنچا تو بیجنگ کے ساتھ کام کروں گا'۔

اس ضمن میں چین کے ریاستی نشریاتی ادارے 'سی سی ٹی وی' نے دونوں صدور کے مابین ہونے والی گفتگو کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ شی چن پنگ نے تسلیم کیا کہ دونوں فریقین کے آپس میں اختلافات ہیں اور ان اختلافات کو حل کرنا چاہیے لیکن مجموعی طور پر تعاون پر زور دیا گیا۔

مزید پڑھیں: امریکا کا چینی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم، دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی

سی سی ٹی وی نے کہا کہ چینی صدر نے تائیوان، ہانگ کانگ اور سنکیانگ سے متعلق جوبائیڈن کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات چین کے داخلی امور ہیں اور چینی خودمختاری کے دائرے میں آتے ہیں۔

شی چن پنگ کے حوالے سے کہا گیا کہ 'امریکا کو چین کے بنیادی مفادات کا احترام کرنا چاہیے اور محتاط رویے کے ساتھ کام کرنا چاہیے'۔

خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تعلقات رواں برس متعدد معاملات پر تنزلی کا شکار رہے جس میں تجارت، ٹیکنالوجی، کورونا وائرس اور چین کا جنوبی چینی سمندر پر دعویٰ اور ہانگ کانگ میں سیکیورٹی قانون نافذ کرنا شامل ہے۔

دانشورانہ املاک اور معلومات کے تحفظ کے لیے معاملے پر امریکا نے چین کو ہیوسٹن میں موجود قونصلیٹ تین دن میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں امریکا کی جانب سے الزام لگایا تھا کہ سان فرانسکو میں واقع چین کے قونصل خانے میں ایک چینی سائنس دان نے پناہ لی ہے جو ویزا فراڈ میں ملوث ہے اور اس کے فوج سے خفیہ تعلقات ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں