کراچی: گواہ نے نوجوان کے اغوا اور قتل کیس میں عذیر بلوچ کی شناخت کرلی

اپ ڈیٹ 12 فروری 2021
گواہ نے عذیر بلوچ کو مجرم کے طور پر شناخت کیا—فوٹو: حسین افضل
گواہ نے عذیر بلوچ کو مجرم کے طور پر شناخت کیا—فوٹو: حسین افضل

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ کے ایک گواہ نے مبینہ طور پر تاجر کے بیٹے کے اغوا اور قتل سے متعلق کیس میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عذیر بلوچ کی شناخت کرلی۔

پانچ درجن سے زائد فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے 2012 میں تاوان کے لیے عبد الصمد کو اغوا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔

مزیدپڑھیں: لیاری گینگ وار کا سربراہ عذیر بلوچ قتل کے ایک اور مقدمے میں بری

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے روبرو یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب تفتیشی افسر نے گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے استغاثہ کے گواہ کو پیش کیا۔

گواہ نے عذیر بلوچ کو مجرم کے طور پر شناخت کیا جس نے مقتول کے اغوا کا حکم دیا تھا۔

گواہ نے بیان میں کہا کہ متاثرہ لڑکے کے والد محمد عظیم نے بھی پولیس کے سامنے عذیر بلوچ کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

مزیدپڑھیں: لیاری گینگ وار کا سرغنہ عذیر بلوچ پولیس پر حملے کے 2 مقدمات میں بری

دوسری جانب عذیر بلوچ نے اپنی بے گناہی کا دعویٰ کیا اور کہا کہ اس نے عبد الصمد کو اغوا کیا اور نہ ہی اس کو جان سے مارنے کا حکم دیا۔

عذیر بلوچ نے مزید کہا کہ مجھے اس کیس میں پولیس کے ذریعے ملوث کیا جارہا ہے۔

جج نے عذیر بلوچ کے خلاف گواہ کا بیان ریکارڈ کرلیا۔

علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی کے جج نے 24 فروری تک کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے دیگر گواہان کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'سیکیورٹی خدشات' پر عزیر بلوچ سینٹرل جیل سے رینجرز کے میٹھا رام ہاسٹل منتقل

استغاثہ کے مطابق عبد الصمدکو عذیر بلوچ نے اپنے گینگ کے ذریعے اغوا کیا تھا اور اس کی رہائی کے لیے اس کے اہل خانہ سے 10 لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا۔

مزید بتایا گیا کہ تاجر محمد عظیم نے اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے 70 ہزار روپے ادا کیے تھے لیکن تاوان کی ادائیگی کے باوجود عبد الصمد کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا تھا کہ 'جاسوسی' کے الزامات پر انہوں نے عزیر بلوچ کو حراست میں لے لیا۔

یاد رہے کہ عذیر بلوچ انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں اپنے حریف ارشد پپو کے بہیمانہ قتل سمیت 50 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں