اثاثوں کی حکومت کو منتقلی، اسٹیٹ بینک کو ملا اختر منصور کے اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 12 فروری 2021
اے ٹی سی 2 کے جج نے الائیڈ بینک لمیٹڈ کوئٹہ برانچ میں متعلقہ عہدیداروں کی طرف سے کی گئی درخواست پر یہ ہدایت جاری کی۔ - فائل فوٹو:شٹر اسٹاک
اے ٹی سی 2 کے جج نے الائیڈ بینک لمیٹڈ کوئٹہ برانچ میں متعلقہ عہدیداروں کی طرف سے کی گئی درخواست پر یہ ہدایت جاری کی۔ - فائل فوٹو:شٹر اسٹاک

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو مقتول افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور کے نجی بینک میں جمع کروائی گئی 'لاوارث' رقم غیر منجمد کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ سرکاری خزانے میں فنڈز کی منتقلی کا عمل شروع کیا جاسکے۔

طالبان رہنما 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے ٹی سی ٹو کے جج نے الائیڈ بینک لمیٹڈ کوئٹہ برانچ میں متعلقہ عہدیداروں کی طرف سے کی گئی درخواست پر یہ ہدایت جاری کی۔

مزید پڑھیں: ملا اختر منصور کے 4کروڑ سے زائد مالیت کے اثاثے برآمد

عہدیداروں نے مقتول افغان طالبان رہنما کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کی واپسی کے لیے عدالت سے ہدایت کی درخواست کی جو عدالت کے احکامات پر منجمد کی گئی تھی۔

عدالت، ملا اختر منصور عرف محمد ولی عرف گل محمد اور اس کے دو مبینہ مفرور ساتھیوں اختر محمد اور عمار کے خلاف کراچی میں جائیدادوں کی خرید و فروخت کے ذریعے رقم اکھٹا کرنے اور جعلی شناختوں کا استعمال کرکے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فنڈز فراہم کرنے کے معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے جولائی 2019 میں قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل وسیم اختر، جو وفاقی حکومت کی جانب سے کیس میں خصوصی پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر مقرر کیے گئے ہیں، ان کے ہمراہ تفتیشی افسر رحمت اللہ ڈومکی اور ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر (لا) خالد حسین شیخ عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے ملا منصور کی جائیدادیں نیلامی کیلئے ضبط کرلیں

دوران سماعت ضلع کوئٹہ کے تحصیلدار سید سمیع اللہ اور ضلع پشاور کے تحصیلدار شہریار عدالت کی جانب سے ان کی گرفتاری کے لیے جاری ناقابل ضمانت وارنٹ کے جواب میں عدالت میں پیش ہوئے۔

دونوں ریونیو افسران نے اپنی متعلقہ رپورٹس پیش کیں جو عدالت نے دونوں صوبوں میں طالبان رہنما اور اس کے ساتھیوں کی ملکیت میں جائیداد، اگر کوئی ہے تو، ضبط کرنے سے متعلق فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 88 کے تحت حکم دیا تھا۔

رپورٹ میں عہدیداروں نے بتایا کہ دونوں صوبوں میں ملا منصور اور اس کے مفرور ساتھیوں کے نام سے کوئی جائیداد نہیں ملی۔

سمیع اللہ نے عدالت کی طرف سے انہیں جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب بھی پیش کیا جس میں عدالت کو پیش نہ ہونے پر غیر مشروط معافی کی پیش کش کی گئی۔

جج نے اس معافی کو قبول کیا اور کہا یہ افسر سنجیدگی سے کام کرے گا اور معاملات میں شریک ہوگا۔

شہر یار نے عدالت کی طرف سے انہیں جاری کردہ شوکاز نوٹس کا جواب بھی پیش کیا اور اپنی تنخواہ جاری کرنے کی درخواست کی۔

جج نے متعلقہ حکام کو ان کی تنخواہ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: عدالت نے ملا منصور کے اثاثوں کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی

تفتیشی افسر ڈومکی نے اپنا بیان حلفی ریکارڈ کرنے کے لیے اگلی تاریخ کی درخواست کی۔

درخواست کی اجازت دیتے ہوئے جج نے مفرور ملزمان کے اشتہارات اور ان کی جائیدادیں منسلک کرنے کے لیے عدالت کی ہدایت کی تعمیل سے متعلق اپنے بیان قلمبند کرنے کے لیے معاملہ 23 فروری تک معطل کردیا۔

عدالت کی جانب سے بھیجے گئے خط کے جواب میں کوئٹہ میں الائیڈ بینک لمیٹڈ کی سیٹلائٹ ٹاؤن برانچ کے عہدیداروں نے ایک انفارمیشن کاپی بھجوائی جس میں اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر بینکنگ کنڈکٹ اور کسٹمر پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے ہدایت طلب کی گئی تھیں کہ وہ ملا اختر منصور عرف گل محمد کے بینک اکاؤنٹ میں جمع لاوارث رقم کو ریفنڈ کریں۔

جج نے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ اسٹیٹ بینک کو خط لکھ کر ملا منصور کے بینک اکاؤنٹ میں موجود لاوارث رقم جاری کرے۔

جج نے بینکوں کو بھی تعمیل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں