جسٹس عیسیٰ کا رجسٹرار کو خط، ’چیف جسٹس کا فیصلہ مجھ سے پہلے میڈیا کو جاری کرنا چونکا دینے والی بات ہے’

اپ ڈیٹ 13 فروری 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 فروری کو جاری کردہ سپریم کورٹ کے (ترقیاتی فنڈز کیس کے) فیصلے کی نقل (کاپی) موصول نہ ہونے پر رجسٹرار آف سپریم کورٹ آف پاکستان کو خط لکھ دیا۔

واضح رہے کہ 11 فروی کو چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ترقیاتی فنڈز جاری کرنے سے متعلق کیس کو نمٹاتے ہوئے تحریری فیصلے میں لکھا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم سے متعلق مقدمات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے سے متعلق اخباری خبر پر نوٹس لیا تھا، جس پر بعد ازاں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کی تھی اور جسٹس عیسیٰ اس بینچ کے رکن تھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیس کی سماعت نہ کریں، سپریم کورٹ

تاہم اس کیس کو دوسری سماعت میں ہی وزیراعظم کی جانب سے خبر کی تردید کے بعد نمٹا دیا گیا تھا اور تحریری فیصلہ بھی جاری کیا تھا، جس کے موصول نہ ہونے پر جسٹس عیسیٰ نے ایک خط لکھ دیا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ کو 12 فروری کو لکھے گئے خط میں جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے 11 فروری 2021 کو مذکورہ کیس میں ایک حکم/فیصلہ (پتا نہیں کونسا) جاری کیا گیا تھا جو میڈیا کو جاری کردیا گیا جبکہ یہ ‘چونکا‘ دینے والی بات ہے کہ اب تک مجھے حکم/فیصلہ موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ یہ ایک روایت ہے کہ بینچ کے سربراہ (مذکورہ کیس میں چیف جسٹس پاکستان) کی جانب سے فیصلہ لکھنے کے بعد اسے اگلے سینئر جج کو بھیجا جاتا ہے اور اس کے بعد آگے، تاہم بظاہر جسٹس اعجاز الاحسن کو یہ موصول ہوگیا ہے لیکن مجھے نہیں ہوا جبکہ دنیا کو میرے دیکھنے سے پہلے معلوم ہوگیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ نے اپنے خط میں سوالات کیے کہ

  • مجھے بتایا جائے کہ کیوں مجھے حکم/ فیصلہ نہیں بھیجا گیا؟
  • کیوں سینئر جج کو فیصلہ بھیجنے کی روایت کو نہیں اپنایا گیا؟
  • کیوں اسے میرے پڑھنے سے قبل میڈیا جو جاری کردیا گیا (مجھے اس پر دستخط کرکے اتفاق یا اختلاف کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا)؟
  • اسے میڈیا کو جاری کرنے کا حکم کس نے دیا ؟
  • مجھے کیس کی فائل دی جائے تاکہ میں بالآخر حکم/ فیصلہ پڑھ سکوں۔

عدالتی کارروائی اور چیف جسٹس کے ریمارکس

یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے اراکین اسمبلی کو فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر لیے گئے نوٹس پر سماعت کی تھی، جہاں وزیراعظم عمران خان نے اراکین میں فنڈز کی تقسیم کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ کسی ترقیاتی کام کے لیے قانون سازوں کو کوئی رقم نہیں دی جائے گی۔

تاہم بینچ کے رکن جسٹس عیسیٰ نے ایک واٹس ایپ پیغام کو پیش کرتے ہوئے اس کی یقین دہانی پر سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ انہیں ایک نامعلوم ذرائع سے یہ پیغام موصول ہوا تھا۔

مذکورہ پیغام میں قومی اسمبلی کے حلقہ 65 میںپاک پی ڈبلیو ڈی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سڑکوں کی تعمیر کے لیے حال ہی میں جاری کردہ بھاری رقم کا ذکر تھا اور یہ حلقہ ایک اہم اتحادی شراکت دار کا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے وزیراعظم کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس لے لیا

تاہم چیف جسٹس نے یہ کہہ کر معاملے کو نمٹا دیا تھا کہ جج اور وزیراعظم کے درمیان کیس میں فریق ہیں۔

جمعرات کو جاری عدالتی فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا تھا کہ چونکہ جسٹس عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف درخواست دائر کررہی ہے لہٰذا غیرجانبداری اور بلا تعصب انصاف کی فراہمی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘یہ مناسب نہیں ہوگا‘ کہ وہ وزیراعظم سے متعلق مقدمات سنیں۔

تحریری فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا تھا کہ یہ انصاف اور معزز جج (جسٹس عیسیٰ) کے مفاد میں ہوگا کہ انہیں وزیراعظم سے متعلق مقدمات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں