لاہور چڑیا گھر: سفید شیر کے 2 بچوں کی موت کورونا وائرس سے ہوئی، حکام

13 فروری 2021
دونوں بچوں کی عمریں 11 ہفتے کی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
دونوں بچوں کی عمریں 11 ہفتے کی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ لاہور کے چڑیا گھر میں سفید شیر کے 2 بچوں کی موت کورونا وائرس سے ہوئی تھی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دونوں بچوں کی عمریں 11 ہفتے کی تھیں۔

مزیدپڑھیں: 'شیروں کے حملے میں ڈاکٹر اور ایک پاکستانی ہلاک'

سفید شیر کے بچوں کی موت 30 جنوری کو ہوئی تھی جبکہ اپنی موت سے چار روز قبل سے زیر علاج تھے۔

ماہرین کا خیال تھا کہ انہیں پر فلین پینیلوکوپینیا وائرس کا حملہ ہوا ہے جو پاکستان میں عام ہے اور جانور کے مدافعتی نظام کو نشانہ بناتا ہے۔

ایک پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ مرنے والے بچوں کے پھیپھڑوں کو بری طرح نقصان پہنچا تھا اور وہ شدید انفیکشن میں مبتلا تھے۔

اس کے بارے میں پیتھالوجسٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سفید شیر کے بچوں کی موت کووڈ 19 سے ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'شیروں کے حملے میں ڈاکٹر اور ایک پاکستانی ہلاک'

اگرچہ کورونا وائرس کے لیے پی سی آر کا کوئی ٹیسٹ نہیں لیا گیا تاہم چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے بتایا کہ چڑیا گھر کورونا وائرس کا شکار تھا جس سے پاکستان میں اب تک 12 ہزار 276 افراد انتقال کرچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 'سفید شیر کے بچوں کی موت کے بعد چڑیا گھر انتظامیہ نے تمام عہدیداروں کے ٹیسٹ کروایا ہے اور عملے کے 6 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے'۔

کرن سلیم نے بتایا کہ 'کورونا کا شکار عملے میں ایک شخص وہ بھی شامل تھا جس نے ان بچوں کی دیکھ بحال کی تھی' ۔

مزیدپڑھیں: کراچی کے چڑیا گھر میں ببر شیر کا اپنے ہی نگہبان پر حملہ

انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے نتائج سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے شیر کے بچوں کو سنبھالنے اور کھانا کھلانے والا شخص کورونا وائرس میں مبتلا تھا۔

دوسری جانب جانوروں کے حقوق کی تنظیم جسٹس برائے کیکی (جے ایف کے) کی بانی نے کہا کہ آخری سفید شیر کے 2 بچوں کی لاہور کے چڑیا گھر میں موت ایک مرتبہ پھر انتظامیہ اور حکام کی غفلت ظاہر کرگئی۔

انہوں نے کہا کہ سفید رنگ کے شیر بہت نایاب ہوتے ہیں اور انہیں صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ایک مخصوص جگہ اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 ایک نیا وائرس ہے اور دنیا بھر میں انسانوں کے لیے پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور اس لیے متعلقہ حکام اور دیگر افراد کو پالتو جانوروں یا چڑیا گھروں اور ہر جگہ پر موجود جانوروں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں