نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت اصغر حیدر دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل تعینات

15 فروری 2021
اصغر حیدر کو دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل نیب تعینات کردیا گیا-فائل/فوٹو: نیب ویب سائٹ
اصغر حیدر کو دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل نیب تعینات کردیا گیا-فائل/فوٹو: نیب ویب سائٹ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا اور اپنی مدت مکمل کرنے والے نیب پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر کو دوبارہ تعینات کردیا گیا۔

وزارت قانون و انصاف سے جاری اعلامیے کے مطابق 'صدر مملکت نےچیئرمین نیب سے مشاورت کے بعد جسٹس (ر) سید اصغر حیدر کو دوبارہ پراسیکیوٹر جنرل نیب تعینات کردیا ہے'۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 'دوسری مدت تین سال کی ہوگی جس کی شرائط اور تنخواہ بھی وہی رہے گی اور چارج سنبھالتے ہی اس کا نفاذ ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں: نیب سے مطمئن نہیں، احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے، سپریم کورٹ

وفاقی حکومت نے پراسیکوٹرجنرل نیب سید اصغر حیدر کی مدت ملازمت پوری ہونے پر دوبارہ تعیناتی کے لیے آرڈیننس جاری کیا، ترمیمی آرڈیننس کے تحت 1999 کے سیکشن 8 میں ترمیم کی گئی ہے اور سیکشن 8 اے تھری کے تحت دوبارہ تعیناتی ہوئی۔

آرڈیننس کے تحت پراسیکوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت پوری ہونے پر دوبارہ تعیناتی ہو سکے گی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے عرفان قادر کی بطور پراسیکیوٹر جنرل نیب دوبارہ تعیناتی کالعدم قرار دی تھی۔

خیال رہے کہ سید اصغر حیدر نے گزشتہ ماہ بطور پراسیکیوٹر جنرل نیب اپنی 3 سالہ مدت مکمل کی تھی۔

گزشتہ برس حکومت نے نیب آرڈیننس میں متعدد ترامیم کی تھیں، جس کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا تھا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

ترامیم میں کہا گیا تھا کہ نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ سے متعلق آرڈیننس سے سپریم کورٹ متنازع ہوسکتی ہے، بلاول

اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی تھی جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا تھا کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری یا تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔

بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا تھا، ایک اور ترمیم میں کہا گیا تھا کہ ’ متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔

اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔

بعدازاں ان ترامیم کو سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست سماجی کارکن اور رہنما محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین نیب، ڈی جیز نیب و دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے، ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری جانب ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ میں نیب آرڈیننس میں ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 5، 19 اے اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں