سپریم کورٹ سے جسٹس عیسیٰ سے متعلق احکامات پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 16 فروری 2021
پاکستان بار کونسل کے نائب صدر نے صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے پی بی سی کا اجلاس طلب کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
پاکستان بار کونسل کے نائب صدر نے صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے پی بی سی کا اجلاس طلب کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدر خوش دل خان نے عدالت عظمی سے استدعا کی ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیر اعظم عمران خان سے متعلق مقدمات کی سماعت سے روکنے کے حکم پر نظرثانی کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نائب صدر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ عدالت عظمیٰ کی ہموار کارروائیوں اور ان کے آئینی فرائض، انصاف کی فراہمی کے لیے اپنے ججز کی آزادی کی حفاظت کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ اس حکم پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔

خوش دل خان نے معاملے کی اہمیت کے پیش نظر صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ابتدائی تاریخ میں پی بی سی کا اجلاس بلانے کی بھی تجویز پیش کی۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیس کی سماعت نہ کریں، سپریم کورٹ

واضح رہے کہ 11 فروری کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے حکم جاری کیا تھا جس میں اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ذاتی حیثیت میں پہلے ہی وزیر اعظم کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کیسز پر سماعت نہ کریں۔

یہ ہدایات پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی میں 50 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز کی تقسیم کے مجوزہ منصوبے کی سماعت کے دوران جاری کی گئیں جس کے بعد سپریم کورٹ کا حکم غیر جانبداری کے اصول کو برقرار رکھنے کا بیان کرتے ہوئے سامنے آیا اور کہا گیا کہ یہ انصاف کے مفاد میں ہوگا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیر اعظم سے متعلق کیسز نہیں سننے چاہئیں۔

تاہم وزیر اعظم کی جانب سے ایک بیان میں میڈیا رپورٹس کو غلط قرار دیا گیا تھا۔

بعدازاں 12 فروری کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ایک خط لکھا جس میں یہ سوال کیا گیا کہ میڈیا کو جاری کرنے سے قبل 11 فروری کے حکم کے حوالے سے انہیں کیوں نہیں آگاہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اس پوری پیش رفت کو چونکا دینے والا قرار دیا تھا۔

ایک صفحے کے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ انہیں حکم / فیصلہ کیوں نہیں بھیجا گیا اور سینئر جج کو بھیجنے کے طے شدہ طرز عمل پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا رجسٹرار کو خط، ’چیف جسٹس کا فیصلہ مجھ سے پہلے میڈیا کو جاری کرنا چونکا دینے والی بات ہے’

خط کی کاپیاں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بھیجی گئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے کہا کہ وہ انہیں کیس فائل فراہم کریں تاکہ وہ حکم / فیصلے کو پڑھ سکیں۔

پشاور ہائی کورٹ بار کی تشویش

ڈان اخبار کی ایک علیحدہ رپورٹ کے مطابق پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور مطالبہ کیا کہ اس پابندی کو ختم کیا جائے۔

ایک بیان میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر خالد انور آفریدی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے باقی ججز سے مطالبہ کیا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کی خاطر دوسرے ججز کی آواز کو روکنے کے عمل کو ختم کریں جو ان سے متفق نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

انہوں نے کہا کہ کیس سے علیحدہ ہونے کا نظریہ یہ ہے کہ جج کو از خود تشخیص کرنا ہوتا ہے کہ آیا کسی خاص کیس کی سماعت کرنا ان کے لیے مناسب ہوگا یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اس فیصلے کو شریک ممبر کی حیثیت سے کسی ساتھی جج کی طرف سے ان کی طرف فیصلہ نہیں لیا جاسکتا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی پریکٹس انگلینڈ میں سر ولیم بلیک اسٹون کے زمانے سے اور امریکا میں چیف جسٹس جان مارشل کے زمانے سے بے عمل میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں